ميرى كچھ عرصہ قبل ہى شادى ہوئى ہے، ميرا خيال ہے كہ ميں بيوى كے ساتھ زنا كا مرتكب ہوا ہوں، ذيل ميں تفصيل پيش كرتا ہوں:
ميں اور بيوى دونوں ہى اپنى بہن كى گاڑى پر سوار تھے اور گاڑى ايك پرسكون جگہ پر كھڑى كر كے ہم نے آپس ميں ايك دوسرے كے بہت بوسے ليے، اسى اثناء ميں ہمارے قريب سے ايك شخص گزرا جس نے ہميں اس حالت ميں ديكھ بھى ليا ليكن ہم پھر بھى نہ ركے.
ميں محسوس كرتا ہوں كہ ہم نے اعلانيہ طور پر زنا كا ارتكاب كيا ہے، كيا ہم پر اس كا كوئى كفارہ ہے ؟
ميں اور بيوى اس مسئلہ ميں بہت زيادہ جھگڑتے رہتے ہيں وہ مجھے ملامت كرتى ہے كہ ميں اس مسئلہ كو بہت اہميت ديتا ہوں، ليكن ميرى رائے ہے كہ ميرى بيوى ايك صحيح اور صالح مسلمان نہيں؛ كيونكہ اسے اللہ كا خوف نہيں اس نے مجھے گاڑى روك كر بوسہ لينے پر ابھارا تھا، ليكن ميں اسے ناپسند كرتا تھا.
لوگوں كے سامنے راستے ميں بيوى كا بوسہ لينا
سوال: 72220
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
ميرے سائل بھائى؛ آپ كو علم ہونا چاہيے كہ آپ بغير گناہ كيے زندگى ہى بسر نہيں كر سكتے، كيونكہ گناہ انسان كى طبيعت ميں شامل ہے.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" ہر بنى آدم گناہ كرنے والا ہے اور سب سے بہتر خطا كار وہ ہے جو توبہ كر لے "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 2499 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 4251 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
يہ حديث پورى وضاحت سے اس پر دلالت كرتى ہے كہ انسان سے ضرور گناہ ہوگا اور وہ ضرور غلطى كا ارتكاب كرے گا، ليكن اہم چيز يہ ہے كہ گناہ كرنے كے بعد اس كا گناہ كے متعلق كيا موقف ہو؟
چنانچہ مومن تو ہر گناہ سے فورا توبہ كرتا اور اسے چھوڑ ديتا اور استغفار كرتا ہے، جب بھى اس سے كوئى معصيت و نافرمانى ہو جائے فورا توبہ و استغفار كرتا اور گناہ چھوڑ ديتا اور اپنے كيے پر نادم ہو كر آئندہ نہ كرنے پختہ عزم كرتا ہے.
اس ليے اگر آپ نے ايسا كيا تو آپ كو علم ہونا چاہيے كہ اللہ سبحانہ و تعالى غفور و الرحيم ہے اور وہ توبہ كرنے اور اپنے گناہ كا اعتراف كر كے اللہ كے سامنے عاجزى و انكسارى كرنے والے مومن و صالح شخص كو معاف كر ديتا ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اے ميرے حبيب صلى اللہ عليہ وسلم آپ ان لوگوں سے كہہ ديجئے جنہوں نے اپنے نفسوں پر زيادتى اور ظلم كر ليا ہے وہ اللہ كى رحمت سے نا اميد مت ہوں، يقينا اللہ سبحانہ و تعالى سارے گناہ بخش دينے والا ہے، يقينا وہ بخشنے والا رحم كرنے والا ہے الزمر ( 53 ).
اور پھر آپ نے جس غلطى اور گناہ كا ارتكاب كيا ہے وہ بيوى سے زنا نہيں! بلكہ وہ تو لوگوں كے سامنے بيوى كا بوسہ لينا ہے، كيونكہ بيوى كے ساتھ زنا نہيں ہوا، بلكہ زنا تو ايسى عورت سے ہوتا ہے جس كے ساتھ آدمى كے مباشرت كرنا جائز نہيں، ليكن بيوى كے ساتھ تو مباشرت و ہم بسترى كرنى حلال ہے.
مرد اور عورت كے ليے جائز نہيں كہ وہ كسى شخص كے سامنے بھى وہ امور بيان كريں جو بستر پر ہوتے ہيں، جن كے بارہ ميں لوگوں كو مطلع نہيں ہونا چاہيے وہ كسى كو بھى نہيں بتائے جا سكتے، كيونكہ اس كے نتيجہ ميں بہت سارى خرابياں پيدا ہوتى ہيں اور شيطان كے ليے دروازہ كھلتا ہے، يہ تو اس كے متعلق ہے جو اپنى بيوى كے ساتھ كى گئى اشياء كا لوگوں ميں وصف بيان كرتا پھرے، تو پھر جو شخص لوگوں كے سامنے بيوى كے ساتھ كرے اور لوگ ديكھ رہے ہوں اس كے بارہ ميں كيا خيال ہو گا ؟!
شيخ محمد بن ابراہيم رحمہ اللہ نے فتوى ديا ہے كہ:
" لوگوں كے سامنے بيوى كا بوسہ لينا جائز نہيں ہے "
ديكھيں: فتاوى شيخ ابراہيم ( 10 / 277 ).
دوم:
رہا اس گناہ اور غلطى كا كفارہ كيا ہے ؟
اس سلسلہ ميں گزارش ہے كہ اس كا كوئى كفارہ نہيں بلكہ صرف آپ كو سچى توبہ كرنا ہوگى اور آئندہ كے ليے پختہ عزم كريں كہ ايسا كام دوبارہ نہيں ہوگا، اور حقيقى طور پر اس كے ارتكاب پر نادم بھى ہوں.
اور يہ كہ آپ اپنے والدين كے سامنے اس كا اعتراف كريں اس كى بھى كوئى ضرورت نہيں، كيونكہ يہ گناہ تو اللہ سبحانہ و تعالى كے حقوق ميں سے ہے جس ميں آپ نے كوتاہى كى اس ليے اللہ كے سامنے ہى اس كا اعتراف اور توبہ ہو گى، يہ اللہ اور آپ كے مابين ہے كسى اور كو اس كى خبر دينے كى كوئى ضرورت نہيں، ليكن آپ توبہ ميں سچائى اختيار كريں تا كہ اللہ سبحانہ و تعالى آپ كے گناہ بخش دے، يقينا اللہ سبحانہ و تعالى بخشنے والا اور رحم كرنے والا ہے.
اور يہ كہ آپ كى بيوى نے ہى ايسا كرنے كا كہا تھا، يہ اس كى دليل نہيں كہ آپ كى بيوى نيك و صالح نہيں، يا پھر وہ اللہ كا خوف نہيں ركھتى، بلكہ آپ بھى تو اس وقت اس كام پر متفق تھے اور اس كى موافقت كى تھى، اور جب اس شخص نے آپ كو ديكھ بھى ليا تو پھر بھى آپ ركے نہيں، اس ليے آپ كو بھى اس كى ذمہ دارى اٹھانا ہوگى.
مزيد آپ سوال نمبر ( 6103 ) اور ( 31773 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.
اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ آپ كو ايسے اعمال كرنے كى توفيق نصيب فرمائے جنہيں وہ پسند فرماتا اور جن سے وہ راضى ہوتا ہے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات