میرا سوال یہ ہے کہ میرے ہاں بیٹے کی پیدائش جمعرات کو عصر کے وقت 4 بجے ہوئی ہے، تو اس کا عقیقہ کس دن ہو گا؟ کیا جمعرات کا دن شمار کریں گے؟ واضح رہے کہ میں نے فقہ کی کتابوں میں پڑھا ہے کہ اگر بچے کی پیدائش زوال کے بعد ہو تو وہ دن شمار نہیں کیا جائے گا۔ اس بارے میں ہماری رہنمائی فرمائیں۔ اللہ تعالی آپ کو برکتوں سے نوازے۔
ساتویں دن عقیقہ مستحب ہے، پیدائش کے بعد ساتواں دن کیسے متعین کروں؟
سوال: 171377
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
ساتویں دن نو مولود کا عقیقہ مستحب ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (ہر مولود اپنے عقیقے کے عوض گروی ہوتا ہے، مولود کی طرف سے ساتویں دن عقیقہ کیا جائے ، اس کے بال منڈوائے جائیں اور اس کا نام رکھا جائے) اس حدیث کو ابو داود رحمہ اللہ (2455) نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (9/364)میں کہتے ہیں:
"ہمارے فقہائے کرام کہتے ہیں کہ: ساتویں دن عقیقہ ذبح کرنا مسنون ہے، اس حوالے سے ہمیں عقیقے کے قائل اہل علم کا کوئی اختلاف نہیں ہے کہ ساتویں دن عقیقہ ذبح کرنا مستحب ہے، اس کی بنیادی دلیل سیدنا سمرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (ہر مولود اپنے عقیقے کے عوض گروی ہوتا ہے، مولود کی طرف سے ساتویں دن عقیقہ کیا جائے۔۔۔)" ختم شد
دوم:
جب یہ واضح ہو گیا کہ ساتویں دن عقیقہ کرنا مستحب ہے تو پھر کیا جمہور کے ہاں ولادت کا دن اس میں شمار ہو گا یا نہیں؟
علامہ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کیا ولادت کا دن سات دنوں میں شمار ہو گا؟ تو اس میں دو موقف ہیں، جن میں سے صحیح ترین موقف یہ ہے کہ اس دن کو شمار کیا جائے لہذا ولادت کے بعد چھٹے دن عقیقہ کیا جائے گا۔
دوسرا موقف یہ ہے کہ ولادت والا دن شمار نہیں کیا جائے گا، چنانچہ ولادت کے بعد ساتویں دن عقیقہ کیا جائے گا۔ یہی موقف بویطی میں صراحت کے ساتھ منقول ہے۔ لیکن پہلا موقف احادیث کے قریب تر محسوس ہوتا ہے۔ البتہ اگر بچے کی پیدائش رات کے وقت ہو تو پھر متفقہ طور پر رات آئندہ دن میں شمار ہو گی ، اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔۔۔" ختم شد
ماخوذ از: "المجموع" (8/411)
اسی طرح "الموسوعة الفقهية" (30/279) میں ہے کہ:
"جمہور فقہائے کرام اس بات کے قائل ہیں کہ پیدائش کا دن سات دنوں میں شمار کیا جائے گا، لیکن رات کے وقت پیدائش ہو تو رات شمار نہیں ہو گی، بلکہ آئندہ دن شمار ہو گا۔" ختم شد
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان : (ساتویں دن عقیقہ ذبح کیا جائے گا۔) کا مطلب یہ ہے کہ ساتویں دن عقیقہ کرنا مسنون ہے، چنانچہ اگر بچے کی پیدائش ہفتے کو ہوئی ہے تو جمعہ کے دن عقیقہ کیا جائے یعنی : اصول یہ ہے کہ: جس دن پیدائش ہوئی ہے آئندہ ہفتے میں اس سے ایک دن پہلے ۔ لہذا اگر جمعرات کو پیدائش ہوئی ہے تو بدھ کو عقیقہ ساتویں دن ہو گا۔ اسی طرح دیگر دنوں کا معاملہ ہو گا۔" ختم شد
"الشرح الممتع"(7/493)
اس لیے سنت یہ ہے کہ آپ اپنے بچے کا عقیقہ بدھ کے دن کریں۔
سوم:
یہ بات کہ اگر بچے کی پیدائش زوال کے بعد ہو تو وہ دن شمار نہیں کیا جائے گا۔ یہ کچھ اہل علم رحمہم اللہ سے منقول ہے۔ بلکہ ان کا موقف یہ ہے کہ پیدائش کا دن سرے سے ہی شمار نہیں ہو گا، چاہے بچے کی پیدائش زوال سے پہلے ہو یا بعد میں اس دن کو شمار ہی نہیں کیا جائے گا، یہ مالکی فقہائے کرام کا موقف ہے۔
جیسے کہ "مختصر خلیل" میں ہے کہ: "مستحب ہے کہ قربانی کے لائق ایک جانور دن میں پیدائش ہونے کی صورت میں ساتویں دن ذبح کیا جائے گا۔ اور اگر پیدائش فجر سے پہلے ہو تو وہ دن شمار نہیں ہو گا۔"
علامہ مواق رحمہ اللہ ابن رشد سے بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
"ابن القاسم نے امام مالک سے روایت کی ہے جو کہ مدونہ وغیرہ میں موجود ہے کہ: اگر بچہ فجر کے بعد پیدا ہو تو یہ دن شمار نہیں ہو گا، آئندہ دن سے سات دن شمار کیے جائیں گے، اور اگر فجر سے پہلے پیدائش رات کے وقت ہو تو پھر دن شمار کیا جائے گا۔" ختم شد
"التاج والإكليل"(4/390)
صحیح موقف جمہور اہل علم کا ہے کہ عقیقہ ولادت سے ساتویں دن ذبح کیا جائے گا اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (ساتویں دن مولود کی طرف سے عقیقہ ذبح کیا جائے گا۔)
الشیخ محمد بن محمد الختار شنقیطی حفظہ اللہ کہتے ہیں:
"[حدیث کے عربی الفاظ "يوم سابعه" میں] مرکب اضافی اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ حکم مضاف الیہ کے ساتھ مقید ہو۔ تو مطلب یہ ہوا کہ: ساتواں دن بچے کی پیدائش کے دن کی طرف مضاف ہے، اس بنا پر ولادت کا دن ساتواں دن ہو گا۔" ختم شد
یہاں مسئلہ صرف استحباب کا ہے، چنانچہ اگر ولادت سے ساتویں دن عقیقہ میسر ہو تو ذبح کر دیا جائے یہ اچھا عمل ہے، اور اگر ساتویں دن کے گزرنے کے بعد ہی میسر ہو تو تب بھی عقیقہ کر دے یہ کافی ہو گا۔
علامہ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر ساتویں دن کے بعد عقیقہ ذبح کرے، یا پہلے کرے یا ولادت کے بعد فوری کر دے تو عقیقہ ہو جائے گا۔ لیکن اگر پیدائش سے بھی پہلے کر دے تو عقیقہ کافی نہیں ہو گا اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ بلکہ یہ گوشت کے لیے ذبح کی گئی بکری ہو گی۔" ختم شد
"المجموع"(8/411)
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب