میں نے عذاب قبر اور قبر کے دباؤ کے متعلق کچھ جوابات کا مطالعہ کیا ہے کہ قبر مومن کو بھی بھینچ دے گی، لیکن کچھ احادیث اس بات کے متضاد ہیں، مثلاً: مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ جب بھی کسی شخص کے پاس قبر میں منکر اور نکیر فرشتے آ کر ایمان کے متعلق سوالات پوچھتے ہیں ، تو مومن ہونے کے صورت میں قبر ستر ہاتھ (ہر ہاتھ 6 انچ) وسیع اور روشن ہو جاتی ہے، پھر یہ بھی بتلایا جاتا ہے کہ مومن قیامت کے دن تک نئی نویلی دلہن کی طرح سو جاتا ہے، اور قیامت کے دن اللہ تعالی اس کے اعمال کا بدلہ دینے کے لیے بیدار فرمائے گا، جبکہ منافق کے لیے قبر کو حکم دیا جائے گا اور قبر اسے اتنا بھینچ دے گی کہ اس کی پسلیاں آپس میں گڈ مڈ ہو جائیں گی۔
نافرمان موحدین کسی وقت عذاب قبر میں مبتلا ہو سکتے ہیں، جبکہ قبر کا بھینچنا سب کے لیے ہو گا۔
سوال: 175666
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
الحمدللہ عذاب قبر اور قبر کی نعمتوں کے متعلق ثابت شدہ نصوص میں کوئی تعارض نہیں ہے، سب ہی حق ہیں۔ چنانچہ مومن کے متعلق جن احادیث میں آتا ہے کہ مومن کے لیے قبر کو 70 ہاتھ لمبائی چوڑائی میں وسیع کر دیا جاتا ہے، اور قبر منور کر دی جاتی ہے، مومن سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ : "تم اس نئی نویلی دلہن کی طرح سو جاؤ جسے صرف وہی جگاتا ہے جو اسے سب سے زیادہ محبوب ہوتا ہے"، مومن کی قبر سر سبز کر دی جاتی ہے۔ جیسے کہ ترمذی: (1071) اور دیگر کتب حدیث میں یہ روایت موجود ہے، اس حدیث کو مشکاۃ المصابیح میں البانیؒ نے حسن قرار دیا ہے۔ تو یہ احادیث ایسے کامل مومن کے بارے میں ہیں جو اللہ تعالی کی اطاعت گزاری میں تاخیر نہیں کرتا تھا، اور نہ نافرمانی سے دور رہتا تھا، یا یہ مومن ان لوگوں میں شامل ہے جن کے لیے اللہ تعالی نے عذابِ قبر اور قبر کے سوالات سے نجات لکھ دی ہے جیسے کہ شہدا ان دونوں سے محفوظ رہیں گے۔
جبکہ کچھ مسلمانوں کے بارے میں عذاب قبر کا ذکر آتا ہے تو یہ نافرمان مسلمانوں کے بارے میں ہے جنہوں نے دنیا میں اچھے اور برے تمام کام کیے ہوں گے، تو ممکن ہے کہ اللہ تعالی انہیں قبر میں اور پھر قیامت کے دن جہنم میں بھی عذاب دے، جب ان کی سزا پوری ہو جائے گی اور گناہوں سے پاک ہو جائیں گے تو انہیں جنت میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے گی، جیسے کہ صحیح بخاری: (7047) میں سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کی حدیث میں متعدد نافرمان موحدین کو عذاب ہونے کا ذکر ہے، مثلاً: فرض نماز پڑھنے کی بجائے سوئے رہنا، زنا، سود خوری، ایسا جھوٹ بولنے والا شخص جس کا جھوٹ دنیا کے کناروں تک پہنچ جائے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس حدیث کے بارے میں کہتے ہیں:
"کچھ نافرمان لوگوں کو برزخی زندگی میں بھی عذاب دیا جائے گا۔" ختم شد
"فتح الباری " ( 12 / 445 )
اسی طرح عذاب قبر ایسے شخص کو بھی ہو گا جو اپنے پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا ہو گا، اسی طرح لوگوں کی چغلی کرنے والے کو بھی عذاب ہو گا۔ اس حدیث کو امام بخاری: (216) اور مسلم : (292) نے روایت کیا ہے۔
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"عذاب قبر دو قسم کے ہیں: دائمی عذاب۔ اس سے وہ عذاب مراد نہیں ہے جس کے متعلق بعض احادیث میں آتا ہے کہ دو نفخوں کے درمیان جتنا وقفہ ہے اتنی دیر کے لیے عذاب میں تخفیف کی جاتی ہے۔ جب یہ لوگ قبروں سے اٹھیں گے تو پکاریں گے: يَا وَيْلَنَا مَنْ بَعَثَنَا مِنْ مَرْقَدِنَا یعنی: ہائے ہماری تباہی! ہمیں ہماری قبروں سے کس نے اٹھا دیا!؟
اس عذاب کے دائمی ہونے کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:
النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا
ترجمہ: صبح اور شام انہیں آگ پر پیش کیا جاتا ہے۔[غافر: 46]
دوسری قسم: وقتی عذاب یہ ایک وقت تک ہو گا ، پھر ختم ہو جائے گا، یہ عذاب ایسے کچھ نافرمانوں کو ہو گا جن کے جرائم قدرے ہلکی نوعیت کے ہوں گے چنانچہ انہیں ان کے جرم کے مطابق عذاب دیا جائے گا، پھر عذاب قبر ان سے ہلکا کر دیا جائے گا، بالکل ایسے ہی جیسے جہنم کا عذاب ایک وقت تک ہو گا اور پھر ختم ہو جائے گا۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ عذاب کسی کی دعا، صدقے، استغفار یا حج کے ثواب کی وجہ سے ختم ہو جائے۔" مختصراً ختم شد
ماخوذ از: "الروح" (ص 89)
عذابِ قبر کی چند صورتیں سوال نمبر: (8829) کے جواب میں مطالعہ کی جا سکتی ہیں۔
دوم:
ایک طرف نافرمانوں کو ہونے والے عذاب اور دوسری طرف اہل ایمان کو قبر کا دبوچنا اور فرشتوں کے سوالات کا سامنا ؛ ان دونوں چیزوں میں فرق ہے؛ آخر الذکر چیز عذاب نہیں ہے۔ قبر کی ہولناکی، خوف زدگی اور قبر کا بھینچنا سب کے لیے ہو گا، حتی کہ اہل ایمان میں سے نیک لوگ بھی اس کا سامنا کریں گے۔
لیکن وہ چیز جسے واقعی عذاب کہتے ہیں ، جس کی طرف ہم نے جواب کے پہلے پیراگراف میں اشارہ بھی کیا ہے تو یہ کسی خاص گناہ کی وجہ سے ہو گا، یہ ہر ایک کو نہیں ہو گا۔
علامہ سیوطی رحمہ اللہ سنن نسائی پر اپنے حاشیے (4/103) میں کہتے ہیں:
"علامہ نسفی کا کہنا ہے کہ: فرمانبردار مومن کو عذاب قبر نہیں ہو گا، اسے قبر کے دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا۔" ختم شد
اس بات کی مزید وضاحت مسند احمد: (23762) کی روایت سے بھی ہوتی ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے بیان کرتی ہیں کہ : (یقیناً قبر دباتی ہے، اگر قبر کے دباؤ سے کوئی بچنے والا ہوتا تو اس سے سعد بن معاذ بچ جاتے۔) اس حدیث کو البانیؒ نے سلسلہ صحیحہ: (1695) میں صحیح قرار دیا ہے۔
قبر کے دباؤ کا سامنا میت کو قبر میں سب سے پہلے کرنا پڑتا ہے جب اسے قبر میں رکھا جاتا ہے۔ قبر کا دباؤ یہ عذاب قبر نہیں ہے جو نافرمان مسلمانوں کو ہو گا۔ اس کے عذاب قبر نہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو بھی قبر نے دبایا تھا، حالانکہ آپ کی وفات پر تو رحمن کا عرش کانپ گیا تھا، جیسے کہ صحیح بخاری: (3803) اور مسلم: (2466) میں یہ چیز ثابت ہے۔
اس حوالے سے مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (71175 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
سوم:
سائل نے سوال میں ذکر کیا ہے کہ: " قبر ستر ہاتھ (ہر ہاتھ 6 انچ) وسیع ہو جاتی ہے "یہ بات بے بنیاد ہے اس کی کوئی دلیل نہیں ہے؛ کیونکہ برزخی زندگی غیب سے تعلق رکھتی ہے اور ہمارا غیب پر بھی ایمان ہے، ہم برزخی زندگی کے معاملات کو دنیاوی اصولوں کے مطابق نہیں ماپ سکتے، تو ہمارا ایمان ہے کہ مومن کے لیے قبر کو ستر ہاتھ وسیع کر دیا جاتا ہے لیکن ہم اس ہاتھ کی مقدار کے بارے میں بات نہیں کریں گے؛ کیونکہ اس کا تعلق غیب سے ہے۔ اس کی دلیل سیدنا براء رضی اللہ عنہ کی روایت ہے جسے امام احمد: (18063) نے روایت کیا ہے، اس روایت میں قبر کی وسعت کا تذکر کرتے ہوئے کہا: (اور اس کے لیے قبر کو تا حد نگاہ وسیع کر دیا جاتا ہے۔) اس حدیث کو البانیؒ نے صحیح الجامع: (1676) میں صحیح قرار دیا ہے۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات