سوال: میرے والد کی ایک مشترکہ کمپنی ہے، کاروباری شریک میرے چچا ہیں، تو کیا میں اپنے چچا سے زکاۃ وصول کر سکتی ہوں، میں شادی شدہ ہوں اور مجھے ضرورت بھی ہے، میری مالی حالت بہت پتلی ہے، میرے گھر کی مرمت ہونے والی ہے فرش بالکل خستہ ہے، تو کیا یہ جائز ہے؟
اگر زکاۃ کی مستحق ہو تو چچا کی زکاۃ لے سکتی ہے؟
سوال: 177838
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اگر آپ کا خاوند کسی مناسب کام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس کے ذریعے اپنے بچوں کا اور آپکا پیٹ پال سکتا ہے تو آپ کی ضروریات آپ کے خاوند کے ذمہ ہے، چنانچہ آپ زکاۃ وصول نہیں کر سکتیں۔
عبد اللہ بن عدی بن خیار سے مروی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دو صحابی آپ کے پاس آئے اور زکاۃ کا سوال کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نیچے سے اوپر تک غور سے دیکھا ، تو وہ کڑیل جوان تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اگر تم چاہو تو میں دے دیتا ہوں، لیکن اس زکاۃ میں کسی مالدار اور کمانے کی صلاحیت رکھنے والے کا کوئی حصہ نہیں ہے) ابو داود: (1633) اس کی سند کو نووی نے “شرح المهذب” (1/171) اور البانی نے صحیح ابو داود: (5/335) میں صحیح کہا ہے۔
مزید کیلئے آپ سوال نمبر: (146363) کا جواب ملاحظہ کریں۔
اور اگر آپ کا خاوند کوئی مناسب کام نہیں کر سکتا کہ جس کے ذریعے اپنے بچوں اور تمہارا پیٹ پال سکے تو پھر آپ اپنے چچا کی زکاۃ لے سکتی ہو، بلکہ ہر ایسے شخص سے زکاۃ وصول کر سکتی ہیں جس کے ذمہ آپ کا خرچہ نہیں ہے، کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
(إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنْ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ)
ترجمہ: صدقات تو صرف فقیروں اور مسکینوں کے لیے اور [زکاۃ جمع کرنے والے]عاملوں کے لیے ہیں اور ان کے لیے جن کے دلوں میں الفت ڈالنی مقصود ہے اور گردنیں چھڑانے میں اور تاوان بھرنے والوں میں اور اللہ کے راستے میں اور مسافر پر (خرچ کرنے کے لیے ہیں)،یہ اللہ کی طرف سے ایک فریضہ ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔ التوبة:60]
مالدار افراد کو چاہیے کہ اپنے مستحق رشتہ داروں عزیز و اقارب میں وقتا فوقتا صلہ رحمی کرتے ہوئے زکاۃ ، صدقہ، عطیات دیتا رہے، کیونکہ رشتہ داروں میں مال خرچ کرنا دوہرے اجر کا باعث ہے؛ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (کسی مسکین پر صدقہ کرنا صرف صدقہ ہی ہے، جبکہ کسی رشتہ دار غریب پر صدقہ کرنا ، صلہ رحمی بھی ہے اور صدقہ بھی ہے)
نسائی: (2581) ترمذی: (658) البانی رحمہ اللہ نے اسے ” صحیح سنن نسائی” میں صحیح قرار دیا ہے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے استفسار کیا گیا:
“کیا اپنے سوتیلے بھائی کی اولاد پر صلہ رحمی کرتے ہوئے اپنی زکاۃ خرچ کر سکتا ہوں؟”
تو انہوں نے جواب دیا:
“آپ کے سوتیلے بھائی کی اولاد زکاۃ کے مستحقین میں شامل ہیں اور آپ پر ان کا خرچہ واجب نہیں ہے تو آپ انہیں اپنی زکاۃ دے سکتے ہیں” انتہی
ماخوذ از: “فتاوی نور على الدرب”
مزید تفصیلات جاننے کیلئے آپ سوال نمبر: (106542) اور (102755) کا مطالعہ کریں۔
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات