0 / 0

کسی غیر ملکی تنظیم کو زکاۃ دینا جو اکثر مال ٹرانسپورٹ پر خرچ کرتی ہے

سوال: 178684

سوال: میں اپنے مال کی زکاۃ ایک غیر ملکی تنظیم کو دیتا ہوں جو انسانیت کیلئے اپنی خدمات فراہم کرتی ہے، اور میں نے سنا ہے کہ وہ صرف 10٪ فقراء اور محتاج لوگوں میں تقسیم کرتے ہیں باقی صدقات و عطیات تنظیم کے ملازمین ، گاڑیوں اور وسائل نقل و حمل پر خرچ کر تے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ ایسی تنظیم کو زکاۃ دینا جائز ہے؟

جواب کا خلاصہ

خلاصہ یہ ہوا کہ: اگر مذکور رفاہی ادارے کا حال ایسے ہی ہے جیسے بیان کیا گیا ہے تو پھر انہیں زکاۃ نہیں دی جا سکتی، کیونکہ وہ زکاۃ کو شرعی مصارف میں خرچ نہیں کرتے۔ واللہ اعلم.

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اول:

زکاۃ محتاج لوگوں تک پہنچانے کیلئے کسی کو اپنا نمائندہ بنانا جائز ہے، جیسے کہ پہلے سوال نمبر: (143842) میں اس پر تفصیلی بات گزر چکی ہے۔

لیکن سوال میں مذکور تنظیم زکاۃ کو فقراء میں تقسیم  کرنے کے بدلے میں  زکاۃ میں سے کچھ نہیں لے سکتے، کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
(إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ)
ترجمہ: صدقات تو صرف فقیروں اور مسکینوں کے لیے اور [زکاۃ جمع کرنے والے]عاملوں کے لیے ہیں اور ان کے لیے جن کے دلوں میں الفت ڈالنی مقصود ہے اور گردنیں چھڑانے میں اور تاوان بھرنے والوں میں اور اللہ کے راستے میں اور مسافر پر (خرچ کرنے کے لیے ہیں)،یہ اللہ کی طرف سے ایک فریضہ ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔ التوبة:60]
چنانچہ اس آیت میں زکاۃ کو فقراء  وغیرہ کیلئے مختص کیا گیا ہے، لہذا کسی کی طرف سے فقراء میں زکاۃ تقسیم کرنے پر مامور شخص اگر اپنے لیے کچھ رقم منہا کرتا ہے  تو یہ صریح آیت  سے متصادم ہے۔
مزید کیلئے سوال نمبر: (70075) اور (36512) کا جواب ملاحظہ کریں۔

تاہم اگر اس تنظیم کے افراد  اپنے آپ کو “زکاۃ جمع کرنے والے عاملین” میں شامل کر کے زکاۃ سے رقم وصول کرتے ہیں تو یہ جائز ہے، بشرطیکہ یہ تنظیم کسی مسلمان حاکم  کے تحت ہو اور وہ مسلمان حاکم کے حکم سے ہی زکاۃ وصول کر کے فقراء میں تقسیم کرتے ہوں۔

اس بارے میں مزید کیلئے سوال نمبر: (128635) کا جواب ملاحظہ کریں۔

دوم:

اگر کسی رفاہی ادارے نے زکاۃ اس کے شرعی مصارف میں تقسیم کرنے کیلئے  وصول کی ہے تو بھی اسے  ادارے  کے ذاتی اخراجات پورے کرنے کیلئے استعمال نہیں کیا جا سکتا، کہ اس میں سے اپنے ملازمین کی زکاۃ منہا کرے یا اس دفتر کا کرایہ وغیرہ اس میں سے دے؛ کیونکہ یہ سب چیزیں زکاۃ کا مصرف نہیں ہیں، اور اگر ان ضروریات کو پورا کرنے کیلئے کچھ نہ ہو تو پھر ادارے کو چاہیے کہ اہل خیر و ثروت لوگوں سے اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے تعاون کی اپیل کرے۔

شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ سے استفسار کیا گیا:
“ایک رفاہی ادارہ ہے جو زکاۃ جمع کر کے فقراء اور مساکین میں تقسیم کرتا ہے، اس کا دفتر میری  بلڈنگ میں ہے تو کیا  اس کا کرایہ وہ زکاۃ کے مال سے  دے سکتے ہیں؟”
تو انہوں نے جواب دیا:
“زکاۃ کی رقم سے کرایہ ادا نہیں کیا جا سکتا، اس رفاہی ادارے کو چاہیے کہ دیگر اداروں کی طرح یہ بھی ایک اکاؤنٹ زکاۃ کیلئے مختص کرے اور ایک اکاؤنٹ صدقات کیلئے اور ایک اکاؤنٹ عام خیراتی امور کیلئے۔

ہر صورت میں زکاۃ کی رقوم کو دیگر رقوم سے جدا رکھنا ضروری ہے۔

سائل: شیخ  صاحب! ہمیں عام صدقات و عطیات اتنے موصول نہیں ہوئے کہ جس سے کرایہ پورا ہو سکے؟
شیخ: اگر نہیں موصول ہوئے تو آپ کسی سے خود جا کر کرایہ مانگ لیں۔
سائل: رفاہی ادارے میں کام کرنے والے لوگوں کو زکاۃ دی جا سکتی ہے؟
شیخ: اگر حکومت کی طرف سے ان کی تعیناتی کی گئی ہے تو انہیں زکاۃ میں سے دیا جا سکتا ہے۔
سائل: لیکن رفاہی ادارے کے اکاؤنٹینٹ کی تنخواہ اسے کافی نہیں ہے؟
شیخ: زکاۃ صرف اسی صورت میں دی جا سکتی ہے جب یہ اکاؤنٹینٹ حکومت کی طرف سے ہو؛ کیونکہ زکاۃ جمع کرنے والوں کی مد میں صرف وہی لوگ شامل ہو سکتے ہیں جنہیں حکومت کی طرف سے متعین کیا گیا ہو، یہی وجہ ہے کہ آیت میں  “عاملین” کا ذکر کرنے کے بعد حرف جر “عليها” کا استعمال کیا گیا ہے، یہ “فيها”نہیں کہا  گیا، اور اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ انہیں زکاۃ جمع کرنے اور پھر تقسیم کرنے کی ذمہ داری حکومت کی طرف سے دی گئی ہو۔
سائل: شیخ! وہ رفاہی ادارے کا اکاؤنٹینٹ ہے، اس کی تنخواہ بہت تھوڑی ہے۔
شیخ: تمہاری بات سے مجھے یقین ہو رہا ہے کہ یہ رفاہی ادارہ کمزور ہے، اور اس کا انحصار صرف زکاۃ کے مال پر ہے، اس لیے اس ادارے کو کام نہیں کرنا چاہیے، بلکہ کسی اور کو ڈھنگ سے کام کرنے دے، زکاۃ صرف مخصوص لوگوں سے وصول کر کے مخصوص جگہوں میں ہی تقسیم کی جاتی ہے” انتہی
“لقاءات الباب المفتوح” (141/12)

سوم:

فرض زکاۃ کسی غیر مسلم کو دینا جائز نہیں ہے، بلکہ یہ مالدار مسلمانوں سے لیکر غریب مسلمانوں میں تقسیم کی جانی چاہیے، لیکن ایسے ادارے اور تنظیمیں جو بلا تفریق خدمت انسانیت میں مصروف عمل ہیں  ان کی سرگرمیاں اگرچہ شرعی ہیں ، اور مسلمانوں کو ان کی وجہ سے کوئی نقصان نہیں پہنچتا، کیونکہ بہت سی ایسی تنظیمیں مسلمانوں کو  عیسائی بنانے کیلئےبھی سرگرم عمل ہیں؛ بہرحال اگر ان تنظیموں کا کام اچھا  اور مفید ہو تب بھی انہیں زکاۃ دینا جائز نہیں ہے، بلکہ انہیں عام صدقات و عطیات دیے جائیں۔

دائمی کمیٹی کے علمائے کرام سے پوچھا گیا:
“میرے پاس کچھ رقم ہے، جس پر ایک سال عنقریب پورا ہو جائے گا، اس کی زکاۃ نکالنے کی کیفیت کے متعلق بتائیں، اور کیا زکاۃ  کا کچھ حصہ بچوں کی نگہداشت کے ادارے یونیسف [ UNICEF] کو بھیجنا جائز ہے؟”
تو انہوں نے جواب دیا:
“اول:  آپ کے پاس موجود سونا، چاندی، نقدی یا مال تجارت میں سے چالیسواں حصہ بطور زکاۃ ادا کرنا فرض ہے، بشرطیکہ وہ مال بذات خود یا اسکے ساتھ دیگر سامان تجارت وغیرہ کو ملا کر نصاب زکاۃ کو پہنچ جائے، اور اس پر ایک سال گزر جائے۔

دوم: بچوں کی نگہداشت کے ادارے یونیسف [ UNICEF] کو زکاۃ  دینا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ اس کی سرگرمیاں مسلمانوں تک محدود نہیں ہیں”
دائمی کمیٹی برائے علمی تحقیقات و افتاء

ممبر…کمیٹی نائب صدر…صدر

عبد الله بن قعود…عبد الرزاق عفیفی…عبد العزيز بن عبد الله بن باز

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android