سوال: میں کچھ یتیموں، بیواؤں اور انکے بچوں کی کفالت کر رہا ہوں، ان کے مال کی حفاظت بھی میں ہی کرتا ہوں، میری ماہانہ آمد اچھی ہے، اور میں زکاۃ کے آٹھ مصارف میں سے نہیں ہوں، تاہم میری آمدنی کا صرف تنخواہ ہی ایک ذریعہ ہے ، جس کی وجہ سے میری ماہانہ کچھ ضروریات پوری نہیں ہوتیں، میں نے کچھ لوگوں کے پیسے دینے ہیں، تو کیا میں یتیموں کے مال کی زکاۃ سے اپنے قرضے ادا کر سکتا ہوں؟
اپنی زیر کفالت یتیموں کے مال کی زکاۃ سے اپنا قرضہ چکا سکتا ہے؟
سوال: 180108
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
مال یتیموں کا ہو یا کسی اور کا ، اگر نصاب کو پہنچ جائے اور اس پر سال گزر چکا ہو تو اس کی زکاۃ ادا کرنا لازمی ہے، اس لیے یتیموں کی کفالت کرنے والے کیلئے مستحب ہے کہ ان کے مال کو تجارت میں لگائے یا سرمایہ کاری کرے، کہیں زکاۃ ہی ان کے مال کو ختم نہ کر دے۔
موطا (863)میں مالک رحمہ اللہ نے ایک بات نقل کی ہے کہ :
"عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ: یتیموں کے مال کو تجارت میں لگاؤ، کہیں انہیں زکاۃ ہی نہ کھا جائے"
دوم:
ہمارا یہ موقف ہے کہ آپ اپنے قرضہ کو چکانے کیلئے یتیموں کی زکاۃ سے انہیں بتلائے بغیر نہیں لے سکتے، کیونکہ زکاۃ ادا کرنے کیلئے آپ یتیموں کی نمائندگی کر رہے ہیں، اس لیے آپ انہیں بتلائے بغیر خود زکاۃ نہیں رکھ سکتے ۔
چنانچہ " كشاف القناع " (3/463) میں ہے کہ:
"اگر زکاۃ یا نفلی صدقات ادا کرنے والا شخص کسی کو مال غریبوں میں تقسیم کرنے کیلئے اپنا نمائندہ بنائے تو یہ نمائندہ اس زکاۃ یا صدقہ سے اپنے لیے کچھ نہیں لے سکتا، اور نہ نمائندگی کے بدلے میں معاوضہ لے سکتا ہے، چونکہ وہ خود زکاۃ تقسیم کرنے کا نمائندہ ہے اس لیے کسی اور کو یہ مال پہنچانا ضروری ہوگا۔۔۔" مزید کیلئے اسی کتاب کے (3/455) کا بھی مطالعہ کریں۔
نیز " ثمرات التدوین من مسائل ابن عثیمین " میں ہے کہ:
"میں نے اپنے شیخ رحمہ اللہ سے استفسار کیا: اگر کسی شخص کو مقروض لوگوں کے قرض چکانے کیلئے کچھ رقم دی جائے ، اور وہ شخص خود بھی مقروض لوگوں میں شامل ہو تو کیا اپنے لیے اس میں سے کچھ رکھ سکتا ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"اصل مالک کی اجازت کے بغیر نہیں لے سکتا، کیونکہ کسی کی نمائندگی کرنے والا شخص اپنے موکل کی اجازت کے بغیر ایسا نہیں کر سکتا" انتہی
مسئلہ نمبر: ( 228 )
مزید کیلئے آپ سوال نمبر: (132774) ، (49899) اور (128635) کا مطالعہ کریں۔
نیز زکاۃ کے مصارف جاننے کیلئے سوال نمبر: (46209) کا مطالعہ کریں۔
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات