0 / 0

جو شخص مکہ میں ہو اور ایک بار پھر عمرہ کرنا چاہے تو کیا کرے؟

سوال: 180123

سوال: میں اپنے بھائیوں کے ساتھ عمرے کیلئے جانے کی نیت کر چکا ہوں، اور ہماری فلائٹ برطانیہ سے پروان چڑھے گی، اور ہم جدہ ائیر پورٹ پہنچنے سے قبل میقات سے پہلے ہی احرام کی چادریں زیب تن کر لیں گے، اور عمرے سے فارغ ہونے کے بعد اگر ہم اپنے فوت شدہ والدین کیلئے عمرہ کرنا چاہیں، یعنی : ایک بھائی والد کی طرف سے عمرہ کرے، اور دوسرا بھائی والدہ کی طرف سے عمرہ کرے، تو ہم نئے عمرے کی نیت کیلئے کس میقات پر جائیں ؟ تا کہ والدین کی طرف سے عمرہ کیلئے احرام باندھ سکیں؟ اور کیا ہمیں والدین کی طرف سے عمرہ کرنے کیلئے احرام کی نئی چادریں پہننا لازمی ہونگی؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اول:

ایک سفر کے دوران  کسی مسلمان کا اپنے لئے  یا کسی کی طرف سے عمرہ کرنا  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت نہیں ہے، اور نہ ہی یہ طریقہ صحابہ کرام سے  ثابت ہے،  ایسے ہی سلف صالحین سے بھی اس کی کوئی تائید نہیں ملتی؛ کیونکہ اصولی طور پر ایک سفر میں ایک ہی عمرہ ہے۔

ابن قیم رحمہ اللہ : "زاد المعاد" (2/89-90) میں کہتے ہیں:
"آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر میں کوئی ایسا عمرہ نہیں تھا جو آپ نے مکہ میں داخل ہونے کے بعد باہر نکل کر پھر  دوبارہ عمرہ کیا ہو، آج کل بہت سے لوگ ایسا کرتے ہیں،  بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام کے تمام عمرے مکہ میں داخل ہوتے ہوئے تھے، [یعنی: آپ نے مکہ پہنچ کر دوبارہ باہر نکل کر عمرے کیلئے احرام کبھی نہیں باندھا، آپ باہر احرام باندھ کر مکہ میں  داخل ہوتے اور عمرہ کرتے تھے۔ مترجم] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی نازل ہونے کے بعد مکہ میں 13 سال قیام فرمایا،  اور اس دوران  کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ نقل نہیں کیا کہ آپ نے مکہ سے باہر نکل کر عمرہ کیلئے احرام باندھا ہو، چنانچہ  جو بھی عمرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا، اور جس عمرہ کو آپ نے شرعی عمرہ قرار دیا وہ باہر سے مکہ میں  داخل ہوتے ہوئے کیا جانے والا عمرہ ہے، وہ ایسا عمرہ نہیں تھا کہ مکہ میں موجود شخص عمرہ کرنے کی نیت سے حِل [حدود حرم سے باہر کا علاقہ]   کی طرف نکلے، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کسی نے بھی ایسا عمل  نہیں کیا، صرف عائشہ رضی اللہ عنہا  اپنے حج کے تمام رفقاء میں سے ایسی تھیں کہ جنہوں نے ایسا کیا تھا؛ جس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے عمرے کا تلبیہ کہا، لیکن انہیں ماہواری شروع ہو گئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا،  تو  انہوں نے عمرے کیساتھ حج شامل کر لیا، اس طرح آپ نے حج قران کیا،  اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہ بھی بتلایا کہ  بیت اللہ کا طواف اور صفا مروہ کی سعی ان کے حج اور عمرہ  دونوں کی طرف سے کافی ہوں گی، تاہم ان کے دل میں یہ بات آئی کہ دیگر خواتین  [سوتنیں]حج و عمرہ  الگ الگ کر کے جائیں گی –کیونکہ ان سب نے حیض نہ آنے کی وجہ سے حج تمتع کیا تھا، ان کا حج قران نہیں تھا – اور میرا [یعنی: عائشہ  کا] عمرہ حج کے ضمن میں ہوگا، الگ نہیں ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بھائی کو حکم دیا کہ انہیں تنعیم سے  عمرہ کروا دے؛ تا کہ عائشہ کا دل مطمئن ہو جائے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس حج کے دوران تنعیم سے  عمرہ نہیں کیا، اور نہ ہی آپ کے ساتھ رفقاء میں سے کسی نے عمرہ کیا" انتہی

دوم:

جمہور اہل علم نے  اپنے سفر میں  ایک عمرہ کرنے والے کیلئے دوسرا عمرہ کرنے کی  رخصت دی ہے، خصوصی طور پر اگر  عمرہ کیلئے آنے والا شخص آفاقی ہو، دور سے سفر کر کے آیا ہو، اور اس کیلئے دوبارہ  مکہ پہنچنا مشکل ہو، تو ایسی صورت میں اس شخص کیلئے قریب ترین حِل کی طرف جانے کی ضرورت ہوگی، اور پھر وہ وہیں سے دوسرے عمرے کا احرام باندھے گا۔

بخاری: (1215) مسلم: (1211) نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: "اللہ کے رسول! آپ سب نے نے عمرہ کر لیا، لیکن میں نے  عمرہ نہیں کیا" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (عبد الرحمن! [عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھائی] تم اپنی ہمشیرہ کو لے جاؤ اور تنعیم سے عمرہ کروا لاؤ) تو انہوں نے اونٹنی پر اپنے پیچھے بٹھایا، تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے عمرہ کیا"

بخاری و مسلم کی ایک اور روایت میں یہ بھی ہے کہ : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد الرحمن کو فرمایا: (اپنی ہمشیرہ کو حرم سے باہر لے جاؤ، اور پھر وہ عمرہ کا تلبیہ کہے)۔

نووی رحمہ اللہ صحیح مسلم کی شرح: (8/210) میں کہتے ہیں کہ:
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: " اپنی ہمشیرہ کو حرم سے باہر لے جاؤ، اور پھر وہ عمرہ کا تلبیہ کہے " علمائے کرام کی اس بات کی دلیل ہے کہ : جو شخص مکہ میں ہو ، اور عمرہ کرنا چاہے تو اس کیلئے میقات قریب ترین حِل ہے، لہذا ایسے شخص کیلئے حرم سے احرام باندھنے کی اجازت نہیں ہے"

علمائے کرام  کا یہ بھی کہنا ہے کہ:  قریب ترین حِل  جانے  کی ضرورت اس لئے ہےکہ عبادتِ عمرہ میں  حل و حرم دونوں  جمع ہو سکیں، بالکل ایسے ہی جیسے حجاج کرام  دونوں جگہوں [حِل و حرم] میں اپنے حج کے ارکان مکمل کرتے ہیں،  اس لئے کہ  حجاج وقوف عرفہ ، میدان عرفات میں کرتے ہیں، اور میدان عرفات حِل میں ہے، پھر وقوفِ عرفہ کے بعد طواف وغیرہ کیلئے مکہ میں آتے ہیں۔

یہ تفصیل  شافعی مذہب کے مطابق ہے، اور جمہور علمائے کرام بھی یہی موقف رکھتے ہیں کہ :  عمرے کیلئے قریب ترین حِل  تک جانا ضروری ہے، اور اگر کسی نے حدود حرم میں رہتے ہوئے احرام باندھا ، اور قریب ترین حِل نہ گیا ، تو اس پر دم لازم ہوگا۔
جبکہ عطاء رحمہ اللہ کہتے ہیں:  "اس پر کوئی دم لازم نہیں ہوگا"
امام مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں: "حِل میں جائے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے"
قاضی عیاض امام امالک کا ایک اور قول بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: "تنعیم سے ہی عمرے کیلئے احرام باندھنا لازمی ہے"
کچھ اہل علم کا کہ یہ بھی کہنا ہے کہ : "تنعیم  مکہ سے عمرہ کرنے والوں کا میقات ہے" لیکن یہ موقف شاذ اور مردود ہے، کیونکہ جمہور اہل علم جس بات کے قائل ہیں وہ یہ ہے کہ حِل کسی بھی طرف ہو تمام  برابر ہیں، تنعیم کو کوئی خصوصیت حاصل نہیں ہے" انتہی

امام مالک رحمہ اللہ  "الموطا": (1/282) میں کہتے ہیں:
"تنعیم سے عمرہ کے بارے میں یہ ہے کہ جو شخص حرم سے نکل کر  حل میں آئے اور عمرے کا احرام باندھے تو ان شاء اللہ یہ عمل اس کیلئے کافی ہو گا، لیکن افضل یہی ہے کہ ان جگہوں سے عمرے کیلئے احرام باندھے جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم میقات مقرر فرمایا ہے، یا تنعیم سے بھی  دور   کسی جگہ سے احرام باندھے " انتہی

امام شافعی رحمہ اللہ "الأم" (2/133) میں کہتے ہیں:
"مکہ میں موجود لوگوں کیلئے عمرے کا میقات  قریب ترین حِل ہے، تاہم افضل یہ ہے کہ جعرانہ یا تنعیم سے  احرام باندھے" انتہی

ابن قدامہ  رحمہ اللہ "المغنی" (3/246) میں کہتے ہیں:
"اہل مکہ عمرہ کرنا چاہیں تو حِل سے احرام باندھیں گے، اور جب حج کرنا چاہیں تو مکہ سے ہی احرام باندھیں گے، یہ حکم اہل مکہ کیلئے ہے چاہے وہ مکہ کا رہائشی ہوئی یا باہر سے سفر کر کے مکہ آیا ہو؛ کیونکہ  جو آفاقی  کسی بھی میقات پر آئے  تو وہیں سے وہ احرام باندھتا ہے، بالکل اسی طرح جو شخص مکہ میں ہے، تو اس کیلئے  حج کی میقات مکہ  ہے، تاہم جو شخص مکہ میں ہو اور عمرہ کرنا چاہے تو قریب ترین حِل سے  احرام باندھے گا، اس بارے میں ہمیں کسی کا اختلاف معلوم نہیں ہے، اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی عبد الرحمن  رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو تنعیم  سے عمرہ کروائے" انتہی

شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"جب کوئی شخص مکہ  میں حج یا عمرے کی نیت سے آئے، تو کیا ایسا شخص اپنے حج یا عمرہ سے فارغ ہونے کے بعد  ایک اور عمرہ اپنے لیے یا کسی کی طرف سے  اسی سفر میں کر سکتا ہے؟  یعنی:  مکہ سے تنعیم جائے اور وہاں سے احرام باندھ کر  اپنا عمرہ مکمل کر لے، اس بارے میں بتلائیں"

تو انہوں نے جواب دیا:
"الحمد للہ، اس میں کوئی حرج نہیں ہے، لہذا کوئی شخص عمرہ یا حج کیلئے آئے، اور اپنی طرف سے حج کرے یا عمرہ کرے، یا پھر کسی کی طرف سے حج یا عمرہ کرے ، اور  پھر فراغت کے بعد اپنے لیے یا کسی اور کیلئے عمرہ کرنا چاہیے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، تاہم  اس عمرے کی ابتدا حِل سے ہوگی، مکہ  سے باہر قریب ترین حل  میں جائے، مثلاً: تنعیم یا جعرانہ  یا کسی بھی قریب ترین حل سے احرام باندھے، پھر اس کے بعد مکہ میں  آکر طواف وسعی کے بعد بال کٹوا دے۔

ایسا شخص یہ عمرہ اپنے لیے، فوت شدہ کسی بھی رشتہ دار کی طرف سے، یا دوست کی طرف سے، یا کسی معذور، انتہائی بوڑھے،  عمر رسیدہ ، یا عمرے کی سکت نہ رکھنے والے لوگوں کی طرف سے کر سکتا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

یہی عمل عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے کیا تھا کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ عمر ہ کیا، پھر  حصبہ کی راتوں یعنی: 13 اور 14  [ذو الحجہ کی راتوں] میں سے 13  کی شام  یعنی 14 کی رات کو عمرہ کرنے کی اجازت مانگی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی، اور ان کے بھائی عبد الرحمن بن ابو بکر  کو حکم دیا کہ انہیں لیکر تنعیم جائے،  چنانچہ اس طرح عائشہ رضی اللہ عنہا  نے عمرہ کیا، اور یہ انکا دوسرا عمرہ تھا، جو کہ مکہ سے باہر نکل کر انہوں نے کیا تھا۔

خلاصہ یہ ہوا کہ :  اس میں کوئی حرج  نہیں ہے کہ انسان اپنی طرف سے حج یا عمرہ کرنے کے بعد  کسی اور کی طرف سے عمرہ کرے، یا کسی اور کی طرف سے حج یا عمرہ کرنے کے بعد  اپنے لیے عمرہ کرے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے" انتہی
ماخوذ از: "فتاوی نور علی الدرب"

مذکورہ بالا تفصیل کی بنا پر : آپ کیلئے یہ جائز ہے کہ اگر آپ انگلینڈ سے  آئیں، اور اپنی طرف سے عمرہ کر لیں، اور پھر آپ اپنے فوت شدہ والد کی طرف سے عمرہ کرنا چاہیں، تو آپ قریب ترین حِل تک جائیں، اور قریب ترین حل  تنعیم  ہے، پھر آپ وہاں سے احرام باندھیں، اور مکہ واپس آکر فوت شدہ  والد کی طر ف سے عمرہ کریں۔

دوسرے عمرے کیلئے پہلے عمرے میں استعمال شدہ چادروں کو استعمال کر سکتے ہیں،  نئی چادریں استعمال کرنے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ آپ احرام کیلئے معتبر شرائط  پر پورے اترنے والی کسی بھی  چادروں میں  احرام باندھ سکتے ہیں، تاہم مستحب یہی ہے کہ صاف اور سفید ہوں۔

واللہ اعلم.

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android