ايك شخص بہت گنہگار ہے، اور اسے خطرناك قسم كى بيمارى لاحق ہو گئى علاج كى بہت كى كوشش كى ليكن كوئى فائدہ نہيں ہوا، ڈاكٹروں نے اسے لاعلاج قرار دے ديا ہے، اور اب وہ اپنے كيے پر نادم ہے اورتوبہ كرنا چاہتا ہے تو كيا اس كى توبہ صحيح ہے، حالانكہ اسے وہ ايسى مہلك بيمارى كا شكار ہے جس سے شفايابى كى اميد ہى نہيں ؟
كيا لاعلاج مريض كى توبہ صحيح ہے ؟
سوال: 1807
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
جى ہاں اپنى زندگى سے نااميد ہونے والے شخص كى توبہ صحيح ہے، چاہے وہ كسى مہلك اور لاعلاج بيمارى كا شكار ہو، مثلا سرطان، يا اپنے آپ كو قتل كے ليے پيش كرنے كى بنا پر، مثلا اس شخص كى طرح جس نے اپنے آپ كو قصاص كے ليے پيش كرديا ہو، حتى كہ اگر جلاد نے اس كے سر پر تلوار بھى سونت لى ہو، اور شادى شدہ زانى جو رجم كا مستحق ہو، چاہے اسے رجم كرنے كے ليے پتھر بھى جمع كيے جا چكے ہوں تو اس كى بھى توبہ صحيح ہو گى كيونكہ اللہ تعالى انسان كى توبہ اس وقت تك قبول كرتا ہے جب تك اس كى روح نكلنے وقت غر غرہ شروع نہيں ہوتا.
كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
توبہ تو ان لوگوں كے ليے ہے جو جہالت ميں برائى كر ليتے ہيں پھر قريب سے ہى توبہ كرتے ہيں، انہى لوگوں كى اللہ تعالى توبہ قبول فرماتا ہے، اور اللہ تعالى علم والا حكمت والا ہے.
اور قريب سے ہى توبہ كر لينے كا معنى يہ ہے كہ وہ موت سے قبل توبہ كرتے ہيں، كيونكہ اللہ تعالى نے اس آيت كے بعد فرمايا ہے:
اور ان لوگوں كى توبہ نہيں جو برائياں كرتے رہتے ہيں اورجب موت آجاتى ہے تو وہ كہتا ہے ميں نے اب توبہ كى .
ليكن توبہ كے ليے پانچ شرطوں كا ہونا ضرورى ہے:
اخلاص، اپنے كيے پر ندامت، فورى طور پر اس فعل كو ترك كرنا، آئندہ اس فعل كو نہ كرنے كا عزم كرنا، اور توبہ اس وقت ميں كى جائے جب توبہ قبول ہوتى ہے، يعنى موت يا مغرب سے سورج طلوع ہونے سے قبل.
ماخذ:
ديكھيں: لقاء الباب المفتوح لابن عثيمين ( 53 / 73 )