میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث پڑھی ہے جو میری سمجھ میں نہیں آئی، اور نہ ہی میں اس کا صحیح معنی جان پایا ہوں، حدیث یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (بدعتی شخص کو پناہ دینے والے پر اللہ کی لعنت ہو) کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ میرے لیے اپنے خاندان کے غیر مسلم افراد کی مدد کرنا حرام ہے؟ یا انہیں اپنے گھر میں ٹھہرانا، یا ان کیلئے رہائش کا بند و بست کرنا صحیح نہیں ہے؟
حدیث : (بدعتی شخص کو پناہ دینے والے پر اللہ کی لعنت ہو) کی شرح
سوال: 180981
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
سوال میں مذکور حدیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح مسلم: (1978) میں علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً بیان کیا ہے اس کے الفاظ یہ ہے:
(اپنے والد کو لعنت کرنے والے پر اللہ کی لعنت ہو، غیر اللہ کیلئے ذبح کرنے والے پر اللہ کی لعنت ہو، بدعتی شخص کو پناہ دینے والے پر اللہ کی لعنت ہو، اور زمین کے ملکیتی نشانات تبدیل کرنے والے پر اللہ کی لعنت ہو)
اس حدیث کے عربی الفاظ میں "مُحْدِث" کا ذکر ہے اور "حَدَث" [اسم]سے مراد ایسا عمل ہے جو کہ سنت نبویہ میں پہلے متعارف نہ ہو۔
اور "مُحْدِث" لفظ کو "دال" پر زبر اور زیر دونوں طرح پڑھا گیا ہے، دال کے نیچے زیر پڑھنے کی صورت میں معنی یہ ہوگا کہ: جو کوئی کسی مجرم کو مدعیان سے پناہ دے، اور بدلہ لینے میں رکاوٹ بنے ۔
جبکہ دال پر زبر پڑھنے کی صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ جو شخص کسی جرم کے تحفظ کا باعث بنے، تو اس صورت میں پناہ دینے کا مطلب یہ ہوگا کہ جرم کو اچھا سمجھے اور جرم کو فکری و نظریاتی تحفظ فراہم کرے؛ کیونکہ اگر جرم اور دین میں بدعت کو اچھا سمجھا اور کرنے والوں کو نہیں روکا تو اس نے برے کام کو تحفظ فراہم کیا" کچھ تصرف کیساتھ اقتباس مکمل ہوا
" النهاية في غريب الحديث " از: ابن اثیر (1/351)
شوکانی رحمہ اللہ " نيل الأوطار " (8/158) میں کہتے ہیں:
"حدیث کا لفظ: "مُحْدِث" دال کے نیچے زیر کیساتھ، اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو دوسروں پر ظلم و زیادتی کے ذریعے دھرتی پر فتنہ و فساد بپا کرتے ہیں، اور پناہ دینے والے سے مراد وہ لوگ ہیں جو شرعی بدلہ اور قصاص لینے میں رکاوٹ بنتے ہیں"
اسی طرح ابن حجر ہیتمی نے اس عمل کو کبیرہ گناہوں میں شمار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
"مجرموں کو پناہ دینے کا مطلب ان سے حقوق لینے کے راستے میں رکاوٹ ڈالنا ہے، اور اس سے وہ لوگ مراد ہیں جو ایسی سرگرمیاں کرتے ہیں جن سے شرعی فیصلہ لازم آتا ہے" انتہی
"الزواجر عن اقتراف الكبائر" (2/204)
مذکورہ بالا تفصیلات کے بعد یہ بات واضح ہے کہ کسی کافر شخص کو رہائش دینا، اور اس کیساتھ حسن سلوک سے پیش آنا مجرموں اور بدعتیوں کو پناہ دینے کے زمرے میں نہیں آتا؛ بلکہ یہ عمل انسانیت کے ساتھ حسن سلوک میں شامل ہے جو کہ شرعی طور پر مطلوب ہے، اور اگر وہ کافر رشتہ دار بھی ہو تو ان کیساتھ حسن سلوک مزید ضروری ہو جائے گا۔
مزید کیلئے آپ سوال نمبر: (27105) کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات