میں ایک غیر مسلم طالبہ ہوں اس وقت میں اسلامی ثقافت پڑھ رہی ہوں اور اسی موضوع پر مقالہ بھی لکھ رہی ہوں تو دوران بحث ایک کلمہ مجھے بار بار پیش آتا رہا ہے جس کے معنی کا مجھے علم نہیں وہ کلمہ (الملاء الاعلی ) تو کیا آپ اس کا معنی سمجھنے میں میرا تعاون کر سکتے ہیں ؟ آپ کا بہت بہت شکریہ
الملاء الاعلی کا معنی
سوال: 1863
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
قرآن مجید اور سنت نبویہ میں یہ کلمہ وارد ہے، سورہ ص میں فرمان باری تعالی ہے :
( مجھے ان بلند قدر فرشتوں کی (بات چیت کا) کوئی علم ہی نہیں جب کہ وہ آپس میں تکرار کر رہے تھے میری طرف تو صرف یہی وحی کی جاتی ہے کہ میں تو صاف صاف ڈرانے والا ہوں ) ص / 69- 70
شیخ المفسرین ابن جریر طبری رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
( مجھے ان بلند قدر فرشتوں کی (بات چیت کا) کوئی علم ہی نہیں اللہ تعالی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرما رہے ہیں کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم کے مشرکوں کو یہ کہہ دو :
( مجھے ان بلند قدر فرشتوں کی (بات چیت کا) کوئی علم ہی نہیں جب کہ وہ آپس میں تکرار کر رہے تھے > آدم علیہ السلام کے متعلق جب تک اللہ تعالی نے میری طرف وحی کر کے بتا نہیں دیا تو میرا اس کے متعلق تمہیں بتانا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہ قرآن کریم اللہ تعالی کی طرف سے نازل اور وحی کردہ ہے کیونکہ تمہیں اس بات کا علم ہے کہ قرآن کے نزول سے پہلے میرے پاس اس کا علم نہیں تھا اور نہ ہی اس کا مشاہدہ اور معائنہ کیا تھا لیکن اللہ تعالی کے بتانے سے مجھے اس کا علم ہوا ہے ۔
اور اہل تاویل بھی اس کے متعلق ایسا ہی کہتے ہیں جیسا کہ ہم نے کہا ہے ۔
ان کا ذکر جنہوں نے اس کی تفسیر میں یہ کہا ہے :
ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : اللہ تعالی کا یہ فرمان :
مجھے ان بلند قدر فرشتوں کی (بات چیت کا) کوئی علم ہی نہیں جب کہ وہ آپس میں تکرار کر رہے تھے >
ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
الملاء الاعلی ، جب فرشتوں سے آدم علیہ السلام کی پیدائش میں مشورہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ زمین میں خلیفہ نہ بنا ۔
اور سدی کا قول ہے :
الملاء الاعلی کے بارہ میں وہ کہتے ہیں یہ وہی ہے جب کہ اللہ تعالی نے کہا : ( جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں خلیفہ بنانے لگا ہوں ) البقرۃ / 30
اور قتادہ کا قول ہے کہ :
( مجھے ان بلند قدر فرشتوں کی (بات چیت کا) کوئی علم ہی نہیں) قتادہ فرماتے ہیں کہ وہ فرشتے ہیں جب ان سے تیرے رب نے یہ کہ کہ ( میں مٹی سے انسان پیدا کرنے والا ہوں) تو وہ آدم علیہ السلام کے متعلق جھگڑنے لگے ۔
اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی یہ ثابت ہے : ابن عباس رضی اللہ عنہما سے حدیث مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ( اللہ تعالی کی ان سے نیند میں کلام کے بارہ میں ) فرمایا :
( اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ کو یہ علم ہے کہ ملاء اعلی (بلند فرشتے ) کس چیز میں تکرار کرتے تھے تو کہا کہ کفارات میں اور کفارہ یہ ہیں کہ نماز کے بعد مسجد میں ہی ٹھرنا اور باجماعت نماز کے لۓ پیدل چلنا اور ناپسندیدگی کی وقت وضو کو مکمل طرح کرنا جو یہ کام کرے گا وہ اس کی زندگی بھی بھلائی میں گزرے گی اور موت بھی بھلائی میں ہی آئے گی اور وہ اپنے گناہوں سے اس طرح پاک ہو گا جس طرح کہ اسے آج ہی ماں نے جنا ہو)
سنن ترمذی حدیث نمبر 3157 صحیح الجامع حدیث نمبر 59
اور مبارکپوری اس حدیث کی شرح کرتے ہوئےفرماتے ہیں کہ :
( فیم ) یعنی کس چیز میں ( یختصم ) یعنی بحث کرتے ہیں (الملاء اعلی) یعنی مقرب فرشتے اور ملاء وہ شرف والے ہیں جو کہ مجلسوں کو عظمتوں وجلال سے بھرتے ہیں اور انہیں الملاء تو اس لۓ کہا گیا ہے کہ اللہ تعالی کے ہاں ان کا مقام مرتبہ بلند ہے اور ان کا تکرار یا تو اس میں تھا کہ وہ ان کے اعمال کو ثابت کرنے اور انہیں آسمان پر لے جانے میں جلدی کرنے میں تکرار کر رہے تھے
اور یا پھر آدم علیہ السلام کے شرف اور فضل میں تکرار تھا اور یا پھر وہ اس پر رشک تھا کہ انسانوں کو یہ فضیلت دی جا رہی ہے تو اسے تکرار اور جھگڑا اس لۓ کہا ہے کہ کیونکہ یہ سوال و جواب کی شکل میں ہوا تھا تو اس لۓ یہ تکرار اور مناظرہ کے مشابہ ہوا تو اس بنا پر تکرار کے لفظ کا اطلاق ہے ۔
واللہ اعلم .
ماخذ:
الشیخ محمد صالح المنجد