سوال: میری والدہ نے فوت ہونے سے پہلے کچھ ہدایات ہمیں دیتے ہوئے کہا کہ : عزیز و اقارب اور خاندان کے افراد میں سے کسی کو بھی انکی وفات کی خبر نہ دی جائے، اور یہ بھی کہا کہ انکے جنازے میں اولاد اور خاوند کے علاوہ کوئی بھی حاضر نہ ہو، اور انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ انکی میت کو کسی مسجد میں تجہیز و تکفین کے تمام مراحل مکمل کر کے لیکر جائیں۔۔۔۔ الخ
تو کیا ہمارے لئے انکی ان ہدایات پر عمل کرنا جائز ہے؟ اور کیا خاندان کے ساتھ تعلقات بچانے کیلئے انکی ہدایات کو نظر انداز کرنا انکی نافرمانی میں شامل ہوگا؟
والدہ نے وصیت کی ہے کہ اسکے جنازے میں کوئی بھی رشتہ دار حاضر نہ ہو، تو کیا اس وصیت کو پورا کرنا ضروری ہے؟
سوال: 188937
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
کسی شرعی مخالفت کی عدم موجودگی میں وصیت پوری کرنا مستحب ہے، اور وصیت پوری کرنے کی وجہ سے نقصان کا اندیشہ ہو تو تب وصیت پوری نہیں کی جائے گی۔
چنانچہ آپکی والدہ کی جانب سے یہ وصیت کرنا کہ عزیز و اقارب کو انکی وفات کے بارے میں نہیں بتانا، اس وصیت کو پورا کرنا لازمی نہیں ہے، اسکی دو وجوہات ہیں:
اول:
اس وصیت کو پورا کرنے سے خاندانی تعلقات ، اور رشتہ داریاں ختم ہوسکتی ہیں، اور لرائی جھگڑا پیدا ہوسکتا ہے؛ جبکہ شریعت صلہ رحمی، اورآپس میں تعلقات قائم کرنے کیلئے خوب ترغیب دلاتی ہے، اسی لئے ہر ایسے کام سے منع کردیا جس سے قطع رحمی، یا رشتہ داروں کے تعلقات میں سرد مہری آسکتی ہو۔
چنانچہ ایسی وصیت جس کی وجہ سے رشتہ داروں میں تعلقات خراب ہوسکتے ہوں ایسی وصیت کو پورا کرنا واجب نہیں ہے، اور نہ ہی مستحب ہے، بلکہ ایسی وصیت کو پورا کرنا جائز ہی نہیں ہے۔
ابن رشد رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“صرف وہی وصیت پوری کی جائے گی جس میں نیکی اور عبادت ہو”انتہی
“البيان والتحصيل” (2/ 287)
دوم:
شریعت نے جنازے میں شرکت کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے ، جنازے کے ساتھ چلنے والے افراد کی تعداد زیادہ سے زیادہ کرنے کی رغبت دلائی ہے، صرف اس لئے کہ میت پر رحمت اور مغفرت کی امید کی جاسکے، جبکہ آپکی والدہ کی وصیت یہ ہے کہ انکے جنازے میں صرف اولاد کیساتھ خاوند ہی شریک ہو، اس وصیت میں شرعی نصوص کی مخالفت ہے۔
چنانچہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کسی بھی میت کا مسلمانوں کی 100 افراد پر مشتمل جماعت جنازہ پڑھے، اور سب کےسب اسکی شفاعت بھی کریں، تو انکی شفاعت قبول کی جاتی ہے) مسلم: (947)
اور عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ : “انکا ایک بیٹا قدید یا عسفان جگہ پر فوت ہوگیا، تو انہوں نے کہا:
کریب! [انکے خادم کا نام] دیکھو کتنے لوگ جمع ہوگئے ہیں؟
کریب باہر نکلے، تو لوگ جمع ہوچکے تھے۔
کریب کہتے ہیں کہ: میں نے انہیں لوگوں کے جمع ہونے کی خبر دے دی۔
تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: کیا تم سمجھتے ہو کہ چالیس کی تعداد میں ہیں؟
تو میں نے کہا: جی ہاں!
تو انہوں نے کہا: میرے بیٹے کی میت کو [جنازے کیلئے]باہر لے آؤ، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا تھا کہ:
(کسی بھی مسلمان میت کے جنازے میں چالیس افراد ایسے موجود ہوں جو شرک نہ کرتے ہوں، تو اللہ تعالی ان سب کی شفاعت کو اس میت کے بارے میں قبول فرمائے گا)” مسلم: (948)
شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اہل علم نے چالیس اور ایک سو کی احادیث میں تطبیق دیتے ہوئے کہا ہے کہ: سو افراد والی حدیث پہلے تھی، پھر اللہ تعالی نے مزید فضل فرماتے ہوئے چالیس کو بھی سو افراد والا درجہ دے کر شفاعت قبول فرمانے کا وعدہ دیا، بہر حال دونوں احادیث میں جنازے میں شرکت کرنے والے افراد کی تعداد زیادہ کرنے کی ترغیب دلائی گئی ہے”انتہی
امالی ” بلوغ المرام” از ابن باز رحمہ اللہ حديث نمبر: (580)
مبارکپوری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“ان احادیث میں جنازے کیلئے شرکت کرنے والے افراد کی تعداد زیادہ کرنے کے بارے میں استحباب کا ذکر ہے، اور مذکورہ تعداد میں لوگوں کے جمع ہونے سے میت کی کامیابی کی بہت ہی امید ہے۔
اس کیلئے دو قید لگائی گئیں ہیں:
پہلی قید: تمام کے تمام لوگ اسکی شفاعت کرنے والے ہوں، یعنی اسکے لئے اخلاص کیساتھ دعا کرنے والے ہوں، سب اسکی مغفرت طلب کریں۔
دوسری قید: کہ سب کے سب مسلمان ہوں ، ان میں سے کوئی بھی ایسا نہ ہو جو اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہو، جیسے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے” انتہی
“تحفۃ الأحوذی” (4/ 98)
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب