اول:
اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ والدین یا دونوں میں سے کسی ایک کی اطاعت اگر اللہ کی نافرمانی میں نہ ہو تو بہت بڑی عبادت اور بندگی ہے، یہ جلیل القدر عبادت ہے۔
جبکہ اللہ کی نافرمانی والے کام میں والدین کی اطاعت نہیں کی جائے گی، یہ جائز نہیں ہے۔
ابو عمر ابن عبد البر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
"تمام علمائے کرام کا اس بات پر اجماع ہے کہ جو شخص کسی نافرمانی والے کام کا حکم دے تو اس کی اطاعت لازمی نہیں ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلا تَعَاوَنُوا عَلَى الْأِثْمِ وَالْعُدْوَانِ
ترجمہ: اور نیکی و تقوی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو، گناہ اور زیادتی کے کاموں میں تعاون مت کرو۔ " ختم شد
"التمهيد" (23 / 277)
دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کہتے ہیں:
"والدین کی اطاعت جائز ہے جہاں اللہ تعالی کی اطاعت ہو اور وہ کام جائز بھی ہو، جبکہ والدین کی کسی ایسے کام میں اطاعت جو اللہ تعالی کی نافرمانی کا باعث ہو تو یہ جائز نہیں ہے۔"
"فتاوى اللجنة الدائمة" (22 /187)
مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (9155) اور (95575) کا جواب ملاحظہ کریں۔
دوم:
روزے رکھنے اور عید کرنے کے اعتبار سے اہل علاقہ کی مخالفت کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان عام ہے: (چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر عید الفطر مناؤ) بخاری: (1909)، مسلم: (1081)
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (روزے کا وہ دن ہے جس میں تم سب روزہ رکھو، عید الفطر کا وہ دن ہے جس میں تم سب عید الفطر مناؤ، اور عید الاضحی کا وہ دن ہے جس دن تم سب قربانی کرو) ترمذی: (679) اس حدیث کو البانی نے صحیح ترمذی میں صحیح قرار دیا ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"تمام مسلمان حکمرانوں کے ہاں اسی پر عمل رہا ہے۔" ختم شد
"مجموع الفتاوى" (25/ 202)
اسی طرح امام احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"مطلع ابر آلود ہو یا صاف ہو، روزہ مسلمان حکمران کے ساتھ اور جس دن تمام مسلمان روزہ رکھیں اسی دن رکھا جائے گا" امام احمد نے مزید کہا کہ: "اللہ تعالی کی مدد اجتماعیت کے ساتھ ہے" ختم شد
"مجموع الفتاوى" (25/ 117)
ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اختلاف شر ہے، اس لیے آپ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنے علاقے والوں کے ساتھ تمام معاملات کریں، یعنی اگر آپ کے علاقے میں مسلمان عید الفطر منائیں تو آپ بھی ان کے ساتھ عید منائیں، اور جب وہ روزہ رکھیں تو آپ بھی ان کے ساتھ روزہ رکھیں" ختم شد
"مجموع فتاوى ابن باز" (15/ 100)
مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (12660) کا جواب ملاحظہ کریں۔
آپ کے والدین کا تمام لوگوں سے الگ تھلگ رمضان کا روزہ بعد میں رکھنا اور پھر عید کے دن بھی روزہ رکھنا یہ دونوں کام ہی حرام ہیں جائز نہیں ہیں۔
اور اگر اس حرام کام کے ساتھ تمام لوگوں کی مخالفت بھی شامل ہو جائے تو اس گناہ کی سنگینی میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے، اس لیے آپ کے والدین کے اس عمل پر ان کی اطاعت کرنا بالکل جائز نہیں ہے۔
یہاں آپ کی ذمہ داری یہ بنتی ہے کہ آپ انہیں اچھے طریقے سے سمجھائیں، ان کی رہنمائی کرتے ہوئے نہایت شفقت سے بات کریں، نیز اہل علم سے اس بارے میں دریافت کرنے کیلیے ان کی مدد بھی کریں، تا کہ انہیں معلوم ہو کہ وہ جو کچھ بھی کر رہے ہیں وہ حرام ہے جائز نہیں ہے، نیز علمائے کرام انہیں یہ بھی بتلائیں کہ اس معاملے میں اولاد کی جانب سے ان کی اطاعت کرنا بھی جائز نہیں ہے، چاہے وہ اس پر ناراضی کا ہی اظہار کیوں نہ کریں؛ کیونکہ جہاں اللہ تعالی کی نافرمانی ہو رہی ہو وہاں والدین کی اطاعت نہیں کی جاتی۔
نیز آپ کے بھائی اور ان کا گھرانہ والدین کے ساتھ رمضان گزارنے کے لیے آ رہا ہے، وہ دونوں اس بات پر تیار ہیں کہ والدین کی اس روش کی مخالفت کریں گے، تا کہ آئندہ بھی آپ کے والدین لوگوں کے ساتھ روزہ رکھنا شروع کریں اور جس دن لوگ عید الفطر منائیں اسی دن وہ بھی عید الفطر منائیں، آپ کے بھائی انہیں یہ بھی بتلائیں گے کہ ان کا طریقہ کار غلط ہے، تو اس کام کے لیے خاندان کے تمام افراد کا اکٹھا ہونا ایک اچھا موقع ہے، چنانچہ آپ اس مسئلے کے حوالے سے اللہ تعالی سے دعا بھی مانگیں کہ اللہ تعالی آپ کے والدین کو راہ راست پر لے آئے، اور حق بات تسلیم کرنے کیلیے ان کی شرح صدر فرمائے۔
پھر اگر آپ کے اس اقدام کے بعد آپ کے والدین آپ سے ناراض رہتے ہیں یا قطع تعلقی کر لیتے ہیں تو آپ پر اس کا کوئی گناہ نہیں ہے، اس کا گناہ انہی پر ہو گا، اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ انہیں ہدایت دے۔
مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (245) کا جواب بھی ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم