رمضان میں افطاری کے کچھ دیر بعد میں نے حیض کا خون دیکھا، لیکن مجھے یہ معلوم نہیں ہے کہ حیض افطاری کے بعد آیا ہے یا پہلے؟ تو کیا مجھے اس دن کا روزہ رکھنا ہو گا؟
روزہ کھولنے کے بعد حیض کا خون دیکھا، لیکن اسے شک ہے کہ خون افطاری سے پہلے آیا یا بعد میں؟
سوال: 191684
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اہل علم رحمہم اللہ نے ایک فقہی قاعدہ ذکر کیا ہے کہ: "کسی بھی رونما ہونے والے واقعے کا وقت ممکنہ قریب ترین وقت ہو گا"
اس فقہی قاعدے کا مطلب یہ ہے کہ: جب کوئی واقعہ رونما ہو اور اس کے رونما ہونے کا وقت قریب بھی ہو سکتا ہو اور دور بھی ، لیکن کوئی ایسا قرینہ موجود نہ ہو جس کی بنا پر قریب یا دور کے وقت کو ترجیح دی جا سکے کہ فلاں وقت میں یہ واقعہ رونما ہوا ہے ، تو ایسی صورت میں قریب ترین وقت کو ہی اس واقعے کے رونما ہونے کا وقت قرار دیں گے؛ کیونکہ یہی وہ وقت ہے جس میں ہمیں اس واقعے کو رونما ہونے کا یقین ہے، جبکہ دور والے وقت میں اس کے رونما ہونے کا یقین نہیں ہے۔
اس قاعدے کو سمجھنے کیلیے یہ مثال لیں کہ: اگر کوئی شخص اپنے کپڑوں پر منی لگی ہوئی دیکھے اور یہ بات واضح ہو کہ یہ احتلام کی وجہ سے ہے، لیکن اس شخص کو احتلام کب ہوا یہ معلوم نہ ہو تو پھر اس منی کو قریب ترین نیند سے جوڑا جائے گا اور اس نیند کے بعد جتنی بھی نمازیں پڑھی تھیں وہ سب نمازیں دہرائے گا۔
اس قاعدے کو زرکشی نے " المنثور فی القواعد " اور سیوطی نے : " الأشباه والنظائر " میں ذکر کرنے کے بعد اس کی مزید مثالیں بھی ذکر کی ہیں، ان کے بارے میں جاننے کیلیے ان کتابوں کی طرف رجوع مفید ہو گا۔
اس بنا پر اگر عورت کو حیض کا خون نظر آئے لیکن اسے یہ علم نہ ہو کہ خون کب آیا؟ کیا خون سورج غروب ہونے سے پہلے آیا یا بعد میں؟ تو ایسی حالت میں خون جاری ہونے کا وقت قریب ترین وقت ہو گا، اور آپ کے سوال میں قریب ترین وقت مغرب کے بعد بنتا ہے۔
چنانچہ " الموسوعة الفقهية " (26/194) میں ہے کہ:
"اسی مسئلے سے یہ مثال تعلق رکھتی ہے : فقہائے کرام ایسی عورت کے بارے میں کہتے ہیں جو حیض کا خون دیکھے لیکن اسے یہ معلوم نہ ہو کہ خون کب آیا؟ تو اس کا حکم اس [عورت]جیسا ہے جو اپنے کپڑوں پر منی لگی ہوئی دیکھے لیکن اسے منی نکلنے کا وقت معلوم نہ ہو، یعنی مطلب یہ ہے کہ: یہ عورت جب قریب ترین نیند سے سو کر اٹھی تو اس کے بعد والی نمازیں غسل کرنے کے بعد دہرائے گی، یہ موقف کم سے کم پیچیدہ اور سب سے واضح ہے" انتہی
شیخ محمد بن محمد المختار شنقیطی حفظہ اللہ سے پوچھا گیا:
"ایک عورت مغرب کی نماز کے بعد حیض کا خون دیکھتی ہے، لیکن اسے یہ معلوم نہیں ہے کہ یہ مغرب کی نماز سے پہلے خارج ہوا یا بعد میں؟ تو اب اس کی نماز اور روزے کا کیا حکم ہے؟"
اس پر انہوں نے جواب دیا:
"جب خون دیکھے اور اسے غالب گمان ہو کہ خون مغرب سے پہلے خارج ہوا تھا تو اس دن کا روزہ کالعدم ہو گا اور اسے قضا دینی ہو گی، اس میں کوئی شک نہیں ہے۔
لیکن اگر اسے غالب گمان ہو کہ خون ابھی تازہ ہی ہے اور یہ مغرب کے بعد ہی نکلا ہے تو پھر اس عورت کا روزہ صحیح ہونے میں کوئی شک نہیں ہے، البتہ مغرب کی نماز پاک صاف ہونے کے بعد قضا کرے گی۔
لیکن اگر یقینی صورت نہ ہو بلکہ شک ہو تو پھر اہل علم رحمہم اللہ ایک قاعدہ بیان کرتے ہیں کہ : "کسی بھی واقعے کو قریب ترین ممکنہ وقت سے جوڑا جائے گا" اب اصل یہ ہے کہ اس خاتون کا روزہ صحیح ہے، تا آنکہ روزہ فاسد ہونے کی دلیل مل جائے،اور درحقیقت اس خاتون نے مکمل دن کا روزہ رکھا ہے ، اور اس عورت کے ذمے یہ روزہ باقی نہیں رہا، چنانچہ خون مغرب کے بعد آیا تو اس کا روزہ صحیح ہے؛ کیونکہ مغرب کے بعد آنے والا خون روزے پر مؤثر نہیں ہو گا۔
نیز یہاں بر عکس مسئلہ بھی سامنے آئے گا؛ کیونکہ اگر آپ کہیں کہ اس خاتون کا روزہ صحیح ہے تو اسے حیض سے فارغ ہونے کے بعد مغرب کی نماز ادا کرنی ہو گی، اور اگر آپ کہتے ہیں کہ اس خاتون کا روزہ [مغرب سے پہلے خون آنے کی وجہ سے]صحیح نہیں ہے ، تو اس پر مغرب کی نماز کی قضا پاک صاف ہونے کے بعد لازمی نہیں ہوگی، یعنی اگر روزے کی قضا سے محفوظ رہی تو مغرب کی نماز کی قضا اسے دینی پڑے گی؛ کیونکہ مغرب کا وقت شروع ہوتے ہی اس خاتون پر مغرب کی نماز فرض ہو گئی تھی [لیکن حیض کی وجہ سے اد انہیں کر پائی، اور نماز کے فرض ہونے کیلیے ] آخر وقت تک پاک ہونا ضروری نہیں ہے، جیسے کہ کچھ حنفی اور بعض حنبلی فقہائے کرام کا موقف ہے" انتہی
" شرح زاد المستقنع " از شنقیطی
تو خلاصہ یہ ہے کہ: چونکہ آپ کو مغرب سے پہلے حیض کا خون آنے کے متعلق یقین نہیں ہے، اس لیے آپ کا روزہ صحیح ہے۔
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب