کیا حاملہ جانور کی قربانی کرنا جائز ہے؟ اور اگر جائز ہے تو جانور کے پیٹ میں موجود بچے کا کیا کیا جائے گا؟
کیا حاملہ جانور کی قربانی کرنا جائز ہے؟
سوال: 192041
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
عید کی قربانی اسلامی شعائر کا حصہ ہے، جوکہ کتاب اللہ، سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اجماع سے ثابت شدہ ہے، اس کا تفصیلی بیان فتوی نمبر: (36432) میں گزر چکا ہے۔
مزید عید کی قربانی سے متعلقہ شرائط فتوی نمبر: (36755) میں دیکھی جا سکتی ہیں۔
دوم:
علمائے کرام کے گھریلو جانوروں میں سے حاملہ جانور کی قربانی کرنے کے بارے میں مختلف اقول ہیں؛ چنانچہ جمہور علمائے کرام جواز کے قائل ہیں، اسی لئے انہوں نے قربانی کیلئے عدم اِجزاء [یعنی قربانی نہ ہونے]کا سبب بننے والے عیوب بیان کرتے ہوئے حمل کا ذکر نہیں کیا۔
جبکہ شافعی فقہائے کرام نے حاملہ جانور کی قربانی کرنے سے منع کیا ہے۔
الموسوعة الفقهية الكويتية (16 / 281) میں ہے کہ:
"جمہور فقہائے کرام نے حمل کو عید کی قربانی کیلئے عیب قرار نہیں دیا، جبکہ شافعی فقہائے کرام نے حاملہ جانور کی قربانی نہ ہونے کی صراحت کی ہے؛ اسکی وجہ یہ ہے کہ حمل کی وجہ سے پیٹ خراب ہوجاتا ہے، اور گوشت اچھا نہیں رہتا"انتہی
اور شافعی فقہ کی کتاب: " حاشيۃ البجيرمی على الخطيب " (4 / 335) میں ہے کہ:
"حاملہ جانور کی قربانی ناکافی ہوگی، یہی موقف [فقہ شافعی میں] معتمد ہے؛ کیونکہ حمل کی وجہ سے جانور میں گوشت کم ہوجاتا ہے، جبکہ زکاۃ کے ضمن میں حاملہ جانور کو کافی شمار کیا گیا ہے؛ کیونکہ زکاۃ میں اصل مقصد افزائش نسل ہوتا ہے، گوشت کی عمدگی کو نہیں دیکھا جاتا"کچھ تبدیلی کے ساتھ اقتباس مکمل ہوا
چنانچہ راجح یہی ہے کہ گھریلو جانوروں میں سے حاملہ جانور عید کی قربانی میں کفایت کریگا، بشرطیکہ اس جانور میں کوئی اور عیب موجود نہ ہو۔
شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"حاملہ بکری کی قربانی بھی ایسے ہی صحیح ہے ، جیسے غیر حاملہ کی صحیح ہوتی ہے، بشرطیکہ قربانی سے متعلقہ بیان شدہ عیوب سے پاک ہو"انتہی
"فتاوى ورسائل شيخ محمد بن ابراہیم" (6/146)
سوم:
مادہ جانور کے پیٹ سے بچہ اگر زندہ نکلے تو اسے بھی ذبح کرکے کھایا جاسکتا ہے۔
ابن قدامہ "مغنی" (9/321) میں کہتے ہیں:
"اگر بچہ ٹھیک ٹھاک زندہ حالت میں باہر آئے ، اور اسکو ذبح کرنا بھی ممکن ہو ، لیکن اسے ذبح نہ کیا جائے اور وہ مر جائے تو وہ کھانے کے قابل نہیں ہوگا، امام احمد کہتے ہیں: "اگر بچہ زندہ باہر آئے تو اسے ذبح کرنا لازمی ہے، کیونکہ یہ ایک الگ جان ہے""انتہی
اور اگر بچہ مردہ حالت میں باہر آئے تو جمہور علمائے کرام اس بات کے قائل ہیں کہ اسے کھایا جاسکتا ہے؛ کیونکہ وہ اپنی ماں کے ذبح ہونے سے خود بھی ذبح ہوچکا ہے۔
ابو داود (2828) ، ابن ماجہ (3199) ، احمد (10950) اور ترمذی (1476) نے ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، اور ترمذی نے صحیح بھی کہا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (پیٹ میں بچے کو ذبح کرنے کیلئے اسکی ماں کو ذبح کرنا کافی ہے) اس راویت کو البانی رحمہ اللہ نے بھی " صحيح الجامع " (3431) میں صحیح قرار دیا ہے۔
جیسے کہ ہم پہلے بھی ذکر کر آئے ہیں کہ یہ جمہور اہل علم کا موقف ہے، لیکن احناف اسکے مخالف ہیں۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ " مجموع الفتاوى "(26 / 307) میں کہتے ہیں:
"حاملہ جانور کی قربانی کرنا جائز ہے، اور اگر اسکا بچہ مردہ حالت میں باہر ہو تو شافعی، اور احمد وغیرہ کے ہاں اسکی ماں کو ذبح کرنا ہی کافی ہے، چاہے اسکے بال آئے ہوں یا نہ اور اگر زندہ حالت میں نکلے تو اسے بھی ذبح کیا جائے گا۔
امام مالک کا مذہب یہ ہے کہ : اگر بال آگئے ہوں تو حلال ہوگا، اور اگر بال نہیں آئے تو حلال نہیں ہوگا۔
اور ابو حنیفہ کے ہاں بچے کے باہر نکلنے کے بعد اس وقت تک حلال نہیں ہوگا جب تک اسے ذبح نہ کر دیا جائے"انتہی
اس بارے میں پہلے تفصیل گزر چکی ہے کہ کچھ اہل علم نے طبی نقطہ نظر سے جنین[پیٹ میں موجود بچہ] کو کھانے سے کراہت کا اظہار کیا ہے۔
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات