سوال: اس حدیث کی کیا تشریح ہے جس میں انگلیوں کے چٹخانے کا ذکر ہے، کیا انگلیاں چٹخانا ہر وقت منع ہے یا صرف نماز میں ہی منع ہیں؟
نماز میں انگلیاں چٹخانا مکروہ ہے۔
سوال: 195331
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
انگلیوں کو نماز میں چٹخانا مکروہ عمل ہے، ہر وقت مکروہ نہیں ہے، اور نماز میں مکروہ ہونے کی وجہ ہے یہ ہے کہ ، نماز میں انگلیوں کو چٹخانے والا شخص نماز سے غافل ہو جاتا ہے، یا دیگر نمازیوں کیلئے تشویش کا باعث بنتا ہے۔
اس بارے میں وارد شدہ حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نہیں ہے، بلکہ وہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا اپنا قول ہے:
چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے غلام شعبہ سے مرو ی ہے کہ : “میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پہلو میں نماز ادا کی، اور انگلیاں چٹخائیں، چنانچہ جب میں نے نماز مکمل کی تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے مجھے کہا: تمہاری ماں نہ رہے! تم نماز میں انگلیاں چٹخاتے ہو!”
اس واقعے کو ابن ابی شیبہ (2/344) نے روایت کیا ہے، اور البانی نے “إرواء الغليل” (2/99) میں کہا ہے کہ اس کی سند حسن ہے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے بھول کر نماز میں انگلیاں چٹخانے کے بارے میں پوچھا گیا، کہ کیا اس سے نماز باطل ہو جاتی ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا:
“انگلیاں چٹخانے سے نماز باطل نہیں ہوتی، تاہم انگلیاں چٹخانا فضول عمل ہے، اور اگر باجماعت نمازمیں ایسا کیا جائے تو دیگر سننے والے نمازیوں کو تشویش میں مبتلا کریگا، اس طرح یہاں انگلیاں چٹخانا اکیلے کی بہ نسبت زیادہ منفی اثرات ڈالے گا” انتہی
“فتاوى أركان الإسلام ” (صفحہ: 341)
دائمی فتوی کمیٹی سے فتوی نمبر: (21349) میں پوچھا گیا:
“نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کے اندر ہاتھ کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں داخل کرنے سے منع فرمایا، تو کیا انگلیوں کو چٹخانا اس ممانعت میں شامل ہوگا؟یہ واضح رہے کہ انگلیاں چٹخانے کے بارے میں کوئی ممانعت احادیث میں نہیں ہے”
تو انہوں نے جواب دیا:
“متعدد اہل علم نے مسجد میں انگلیاں چٹخانے کو مکروہ قرار دیا ہے، انہوں نے اس عمل کو تشبیک [ہاتھ کی انگلیاں ایک دوسرے میں ڈالنا] کے مترادف قرار دیا ہے؛ اس لئے کہ یہ دونوں [تشبیک اور چٹخانا] حرکتیں فضول ہیں”انتہی
“فتاوى اللجنة الدائمة – دوسرا ایڈیشن-” (5/ 266)
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب