سوال: ایک انتہائی تنگ دست شخص کے ذمہ میرے کچھ پیسے ہیں، اور مجھے کچھ لوگ صدقات دے دیتے ہیں کہ میں انہیں جہاں مرضی خرچ کروں، تو کیا میں ان صدقات کی رقوم سے اپنا قرض ، مقروض شخص کی طرف سے لے سکتا ہوں؟ یا کہ مجھے مقروض شخص کو بتلانا ہو گا کہ میں موصول ہونے والے صدقات سے اپنی رقم لے رہا ہوں، یا مجھے اس طرح کرنے کی اجازت نہیں ہے؟
عطیات و صدقات تقسیم کرنے والے شخص کا کسی تنگ دست کے ذمہ قرض ہے، تو کیا وہ ان صدقات میں سے اپنے قرض کی رقم لے سکتا ہے؟
سوال: 197493
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
فقراء اور مساکین تک زکاۃ و صدقات وغیرہ پہنچانے کیلئے کسی دوسرے شخص کی ذمہ داری لگائی جاسکتی ہے، چنانچہ ” الإنصاف ” (3 /197 ) میں ہے کہ:
“زکاۃ کی ادائیگی کیلئے کسی کی ذمہ داری لگانا جائز ہے، اور یہی موقف درست ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ وہ شخص قابل اعتماد ہونا چاہیے، اس شرط کے بارے میں امام احمد نے صراحت سے گفتگو کی ہے، اسی صحیح موقف کے مطابق اس کا مسلمان ہونا بھی ضروری ہے” انتہی
تاہم بذات خود زکاۃ و صدقات فقراء میں تقسیم کرنا افضل ہے، چنانچہ” المجموع ” (138/6) میں ہے کہ:
“جس زکاۃ کو خود تقسیم کر سکتا ہے اس کیلئے کسی دوسرے کو بھی ذمہ داری سونپ سکتا ہے۔۔۔ اگرچہ یہ بھی ایک عبادت ہے تاہم پھر بھی کوئی دوسرا شخص یہ ذمہ داری نبھا سکتا ہے، بالکل ایسے ہی جیسے قرض کی ادائیگی میں کوئی دوسرا شخص بھی مقروض شخص کا نمائندہ بن سکتا ہے، اور ویسے بھی اس بات کی ضرورت پڑ سکتی ہے کہ کوئی دوسرا شخص زکاۃ تقسیم کرے، مثلاً: مالک کے پاس مال نہیں ہے، لیکن مالک کے نمائندے کے پاس مالک کی رقم موجود ہے تو وہ زکاۃ تقسیم کر سکتا ہے۔۔۔ تاہم بذات خود زکاۃ تقسیم کرنا افضل ہے، اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے، کیونکہ خود زکاۃ تقسیم کرنے پر دل جتنا مطمئن ہوگا، اتنا کسی کو ذمہ داری سونپنے پر نہیں ہوگا” انتہی
اس بنا پر سائل سے گزارش ہے کہ: اگر کوئی شخص آپ کو زکاۃ، صدقات، عطیات لوگوں میں تقسیم کرنے کی ذمہ داری سونپے تو آپ پر واجب ہے کہ اسے غریبوں میں تقسیم کر دیں، چنانچہ آپ اپنے قرضے ان رقوم سے منہا نہیں کر سکتے، کیونکہ زکاۃ دینے کا مقصد یہ ہے کہ فقراء تک مال پہنچے، اور ان کی ملکیت میں داخل ہو۔
اس بارے میں شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ اپنی تفسیر (3 / 358) میں کہتے ہیں:
“زکاۃ اس وقت زکاۃ متصور نہیں ہوگی جب تک فقراء کے پاس نہ پہنچ جائے، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاءَ اور تم صدقہ فقراء تک پہنچا دو[البقرة : 271] اس سے دو باتیں معلوم ہوتی ہیں:
1-صدقہ پہنچانے کے اخراجات صدقہ کرنے والے کے ذمہ ہونگے۔
2-اگر صدقہ کرنے والا شخص اپنے مال کو صدقہ کرنے کی نیت کر لے، پھر اس کی نیت تبدیل ہو جائے تو صدقہ نہ کرنے کی اجازت ہے؛ کیونکہ ابھی تک مال غریبوں تک نہیں پہنچا” انتہی
اسی طرح حنبلی فقیہ مرداوی رحمہ اللہ “الإنصاف” (234/3) میں کہتے ہیں:
“زکاۃ کی رقم غریبوں کی ملکیت میں آنا ضروری ہے، اس لیے غریبوں کو صبح شام کا کھانا زکاۃ کی رقم سے کھلانا درست نہیں ہوگا۔۔” انتہی
نیز اہل علم نے یہ بات صراحت کیساتھ کہی ہے کہ : اگر کسی شخص کا کسی غریب شخص کے ذمہ قرض ہو تو قرض خواہ اپنا قرض معاف کر دے اور اسے زکاۃ میں شمار کرے تو یہ درست نہیں ہے، کیونکہ زکاۃ کی ادائیگی اسی وقت ہوگی جب غریب شخص کی ملکیت میں کوئی چیز آئے گی، لیکن اس صورت میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے، چنانچہ اس بارے میں شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ سے استفسار کیا گیا:
“اگر آپ کا کسی مریض یا تنگ دست غریب کے ذمہ قرض ہو تو اسے زکاۃ شمار کرتے ہوئے معاف کر سکتے ہیں؟”
تو انہوں نے جواب دیا:
“ایسا کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ تنگ دست مقروض شخص کو اتنی مہلت دینا واجب ہے کہ وہ آسانی سے قرضہ واپس کر سکے، ویسے بھی زکاۃ اسی وقت ہوگی جب اس میں ادائیگی ہو، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ( وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ )نماز قائم کرو، اور زکاۃ ادا کرو [البقرہ: 43] لیکن تنگ دست مقروض شخص کو قرضہ معاف کرنے میں ادائیگی نہیں ہوگی، بلکہ یہ معافی ہے، ویسے بھی اس طرح کرنے کا مقصود اپنے مال کو تحفظ دینا ہے، غریب شخص کیساتھ ہمدردی کا پہلو بہت کم ہے۔
تاہم آپ اسے اس کی غربت اور ضروریات کو سامنے رکھ کر زکاۃ دے سکتے ہیں، چنانچہ اگر غریب آدمی زکاۃ وصول کر کے اس میں سے کچھ پیسے آپکو قرض کی واپسی کے طور پر دے دے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، بشرطیکہ آپ اس عمل کیلئے اسے مجبور نہ کریں، بلکہ غریب آدمی اپنی خوشی سے ایسے کرے۔
اللہ تعالی سب لوگوں کو دین کی سمجھ اور دین پر استقامت سے نوازے۔” انتہی
“فتاوى الشیخ ابن باز” (280/14)
چنانچہ اگر خود زکاۃ دینے والے کیلئے مقروض شخص سے قرضہ معاف کر کے اسے زکاۃ میں شمار کرنا جائز نہیں ہے، تو صرف زکاۃ کی تقسیم کیلئے مقرر شخص کیلئے اپنے مقروض شخص سے قرضہ معاف کرنا کیسے جائز ہوگا؟!، اس کا کام تو صرف اتنا ہے کہ زکاۃ مستحقین میں تقسیم کر دے، چنانچہ اس کیلئے تو ایسا کرنا زیادہ سختی سے منع ہوگا، اور اگر وہ ایسا کرتا بھی ہے تو یہ محض اپنے مفاد کیلئے کریگا۔
یہ بات عیاں ہے کہ اگر کوئی مقروض تنگ دست ہو تو قرض خواہ کو مزید مہلت دے دینی چاہیے فرمانِ باری تعالی ہے:
( وَإِنْ كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَى مَيْسَرَةٍ وَأَنْ تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ)
ترجمہ: اور اگر [مقروض] تنگ دست ہو تو آسانی تک مہلت دے دو، اور اگر تم صدقہ کر دو تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے، اگر تم جانتے ہو [البقرة:280]
شیخ عبد الرحمن سعدی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں:
“یعنی اگر مقروض شخص تنگ دست ہو اس کے پاس قرض ادا کرنے کیلئے کچھ نہ ہو تو قرض خواہ کو آسانی تک مہلت دے دینی چاہیے، اور مقروض پر واجب ہے کہ کسی بھی جائز طریقے سے مال حاصل ہو تو فوری قرض ادا کر دے، لیکن اگر قرض خواہ مقروض سے مکمل یا کچھ حصہ معاف کر دے تو یہ اس کیلئے بہتر ہے” انتہی
تفسیر السعدی ( ص 959 )
خلاصہ یہ ہوا کہ:
آپ کیلئے صدقے کی رقوم میں سے کچھ بھی لینا جائز نہیں ہے، چاہے آپ غریب شخص کو اس بارے میں خبر دیں یا نہ دیں، یا غریب شخص آپ کو ایسا کرنے کی اجازت دے یا نہ دے، بلکہ آپ اسے اس نیت سے زکاۃ کا مال نہیں دے سکتے کہ آپ کا قرضہ اس رقم سے ادا کرے، بلکہ یہ زکاۃ کا پیسہ خالص اس کی ملکیت ہوگا، کیونکہ وہ غریب اور ضرورت مند ہے، بعد میں جب اس کے پاس پیسہ ہو تو آپ اپنا قرضہ طلب کر سکتے ہیں۔
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب