سوال: اگر کسی نے حج میں طواف قدوم یا طواف افاضہ وضو کے بغیر کیا ہو، اور اب واپس جا کر دوبارہ طواف کرنا چاہیے تو کیسے کرنا ہوگا؟
کیا میقات سے احرام باندھے اور یہ نیت کرے کہ وہ طواف افاضہ کر رہا ہے، یا پھر عمرہ کیلئے احرام باندھ کر عمرہ مکمل کرے اور پھر نیا احرام باندھے بغیر طواف افاضہ کرے؟ یا کوئی اور طریقہ اپنائے؟
اور کیا اس پر دم بھی ہوگا؟ کیونکہ اس نے خوشبو کا استعمال بھی کر لیا ہے، بال بھی کٹوا لیے ہیں، اور اگر اس پر دم ہے تو وہ دم کی ادائیگی اتنی دیر کیلئے مؤخر کر سکتا ہے کہ اس کے پاس اتنی رقم جمع ہو جائے یا پھر طواف افاضہ کے بعد اور مکہ سے باہر جانے سے پہلے اس کی ادائیگی ضروری ہے؟
بے وضو حالت میں طواف کیا، تو کیا اس پر کچھ ہے؟
سوال: 198837
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
پہلے سوال نمبر: (34695) میں طواف کیلئے وضو سے متعلق اہل علم رحمہم اللہ کی آراء بیان ہو چکی ہیں ، چنانچہ ان میں سے جمہور اہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ وضو طواف کیلئے شرط ہے، جبکہ دوسرا موقف یہ ہے کہ طواف کیلئے وضو شرط نہیں ہے، چنانچہ بے وضو شخص کا طواف بھی درست ہے۔
چنانچہ اس مسئلے کے بارے میں اختلاف کو مد نظر رکھتے ہوئے اور اختلاف سے بچتے ہوئے مکہ میں موجود حجاج کو بغیر وضو کے طواف نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ یہی بات محتاط ہے۔
لیکن جو شخص اپنا حج یا عمرہ کر کے مکہ سے اپنے ملک واپس آگیا ہے، تو اس کے بارے میں ہم یہ امید کرتے ہیں کہ اس کیلئے کوئی حرج نہیں ہے، اور وضو کی شرط نہ لگانے والے موقف کے مطابق ان شاء اللہ اس کا حج یا عمرہ صحیح ہوگا؛ کیونکہ یہ بھی ایک مضبوط موقف ہے، اور دلائل کے اعتبار سے کسی حد تک ٹھوس بھی ہے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“دل اسی بات پر مطمئن ہوتا ہے کہ طواف کیلئے وضو شرط نہیں ہے، لیکن افضل ، کامل اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل اتباع یہی ہے کہ وضو کیساتھ ہی طواف کرے، اور بغیر وضو کے طواف نہ کرے؛ کیونکہ جمہور علمائے کرام طواف میں وضو کو شرط قرار دیتے ہیں، لیکن بسا اوقات انسان کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے موقف کو بھی اپنانا پڑ جاتا ہے، مثلاً: اگر طواف کرتے ہوئے سخت ازدحام کی حالت میں آخری چکروں میں وضو ٹوٹ گیا تو اس میں بہت مشقت اٹھانی پڑے گی، اور جس معاملے میں شدید مشقت ہو اور واضح نصوص بھی نہ ہوں تو ہمیں لوگوں پر واضح نص نہ ہونے کی وجہ سے سختی نہیں کرنی چاہیے، بلکہ ہمیں آسانی اور سہولت پر عمل کرنا چاہیے؛ کیونکہ لوگوں کو کسی ایسے کام پر مجبور کرنا جس کے بارے میں واضح دلیل نہ ہو یہ بات فرمانِ باری تعالی :
( يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلاَ يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْر)
ترجمہ: اللہ تعالی تمہارے ساتھ آسانی کا ارادہ رکھتا ہے، تنگی کا ارادہ نہیں رکھتا۔[البقرة :185] کے منافی ہے” انتہی
” الشرح الممتع ” (7/263)
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات