0 / 0
14,76407/01/2014

فرائض کے بعد والی سنن مؤکدہ کو فرائض سے قبل ادا کرنے کا کیا حکم ہے؟

سوال: 199028

کیا کوئی عشاء کی دو سنتیں فرائض کی ادائیگی سے پہلے ادا کرسکتا ہے؟ اور اگر کسی نے لاعلمی کی بنا پر ایسا کرلیا تو اب اسکا کیا حکم ہے؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں

سنن مؤکدہ کی قسمیں ہیں:

پہلی قسم: وہ سنتیں جو فرائض سے پہلے ادا کی جاتی ہیں، جنہیں (سنن قبلیہ ) کہا جاتا ہے، اور یہ : فجر کی دو سنتیں، اور ظہر سے پہلے دو دو رکعت کے ساتھ چار سنتیں ہیں۔

اس قسم کی سنتوں کا وقت نما ز کے وقت سے ہی شروع ہوجاتا ہے، اور فرائض کی ادائیگی تک رہتا ہے۔

دوسری قسم: ایسی سنتیں جو فرائض کے بعد ادا کی جائیں، اور انہیں (سنن بعدیہ) کہا جاتا ہے، اور یہ : مغرب کے بعد دو رکعات، عشاء کے بعد دو رکعات، اور ظہر کے بعد دو رکعات پر مشتمل ہیں۔

اس قسم کی سنتوں کا وقت فرائض کی ادائیگی سے فراغت کے بعد سے لیکر نماز کا وقت ختم ہونے تک رہتا ہے۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:

“فرض نماز سے پہلے کی ہر سنت کا وقت نماز کا ٹائم شروع ہونے سےلیکر فرائض کی ادائیگی تک رہتا ہے، اور فرض نماز کے بعد والی سنتوں کا وقت فرائض کی ادائیگی سے فراغت سے لیکر نماز کا وقت ختم ہونے تک رہتا ہے” انتہی ” المغنی ” (1/436)

اور ” الموسوعہ الفقهيہ ” (25/281-282) میں ہے کہ :

“سنن مؤکدہ فرائض کے ساتھ ہی ہوتی ہیں، کچھ کو فرائض کی ادائیگی سے پہلے ادا کیا جاتا ہے، جیسے فجر اور ظہر کی پہلے والی سنتیں، اور کچھ کو فرائض کی ادائیگی کے بعد ادا کیا جاتا ہے، جیسے: ظہر کی بعد والی سنتیں، اور مغرب و عشاء کی سنتیں، وتر اور قیام رمضان۔

چنانچہ جو سنتیں فرائض کی ادائیگی سے پہلے ہیں انکا وقت: نماز کے وقت سے شروع ہوکر نماز باجماعت ہونے کی صورت میں اقامت کہنے تک رہتا ہے ، اس لئے کہ جب نماز کی اقامت کہہ دی جائے تو فرض نماز کے علاوہ کوئی نماز نہیں ہوتی، اور اگر اکیلے ہی نماز ادا کرنی ہے تو فرائض کی ادائیگی شروع کرنے تک ان سنتوں کو ادا کیا جاسکتا ہے۔

جبکہ بعد والی سنتیں جیسے ظہر ، مغرب، اور عشاء کی ہیں ان کا وقت فرائض ادا کرنے کے بعد سے لیکر نماز کا وقت ختم ہونے اور دوسری نماز کا وقت شروع ہونے تک جاری رہتا ہے” انتہی بتصرف

مندرجہ بالا بیان کے بعد : جس شخص نے عشاء کے بعد والی سنتیں پہلے ادا کیں ، تو گویا کہ اس نے سنتیں وقت سے پہلے ادا کرلیں، اور یہ اسکی سنن مؤکدہ شمار نہیں ہونگی بلکہ یہ نفل ہونگے جو آذان اور اقامت کے درمیان ادا کئے جاتے ہیں، جن پر اجر ضرور ملے گا لیکن سنن مؤکدہ والا نہیں بلکہ نفل والا اجر ملے گا۔

امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

“عشاء کی نماز سے پہلے دو یا اس سے زیادہ رکعتیں ادا کرنا مستحب ہے؛ جیسے کہ عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کی حدیث میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (دونوں آذانوں کے درمیان نماز ہے، دونوں آذانوں کے درمیان نماز ہے، دونوں آذانوں کے درمیان نماز ہے،) تیسری بار کہا: (جو چاہے وہ پڑھ لے)”بخاری و مسلم، “دو آذانوں”سے تمام علماء کے نزدیک آذان اور اقامت ہے” انتہی

” المجموع ” (3/504)

مزید استفادہ کیلئے سوال نمبر (128164) کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔

اور جو شخص مذکورہ بالا حکم سے لا علم ہونے کی وجہ سے بعد والی سنتیں پہلے ادا کیا کرتا تھا، اسکے بارے میں اللہ سے امید ہے کہ اللہ تعالی اسے سنن مؤکدہ کا اجر ہی دے گا کیونکہ اسے اس مسئلہ کا پتہ نہیں تھا۔

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

answer

متعلقہ جوابات

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android