میرا بھائی فوت ہو گیا اور سوگواروں میں والدہ، بیوی، بیٹے اور بیٹیاں چھوڑ گیا، ابھی ترکہ تقسیم نہیں ہوا تھا کہ میری والدہ بھی تین بیٹے اور 2 بیٹیاں چھوڑ کر فوت ہو گئیں ۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا میری والدہ کو میرے بھائی سے ملنے والے حصے میں سے ہمارا کوئی حصہ بنتا ہے؟ اور یہ بھی سوال ہے کہ میں نے پہلے یہ نیت کی ہوئی تھی کہ جو حصہ مجھے بھائی کی وراثت میں سے والدہ کے ذریعے ملے گا وہ میں اپنے اسی بھائی کی اولاد کے لیے چھوڑ دوں گا، لیکن بعد میں میں نے اپنی نیت تبدیل کر لی، تو کیا نیت بدلنے پر مجھے گناہ ہو گا؟
ماں سے پہلے بیٹا فوت ہو گیا، پھر بیٹے کی وراثت تقسیم ہونے سے پہلے ماں بھی فوت ہو گئی، تو کیا ماں کے حصے کے حقدار محروم رہیں گے؟
سوال: 199223
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
والدہ کی زندگی میں فوت ہو جانے والے بیٹے کی وراثت تقسیم ہونے سے پہلے والدہ فوت ہو جائے تو اس سے والدہ کا حق وراثت بیٹے کی وراثت میں سے ساقط نہیں ہوتا؛ کیونکہ بیٹے کی وراثت میں سے حصہ پانے کے لیے شرط یہ ہے کہ جس وقت میت فوت ہو اس وقت وارث زندہ ہونا چاہیے۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (196671 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
چنانچہ اس بنا پر: پہلے فوت شدہ بیٹے کا ترکہ تقسیم کیا جائے گا اور پھر والدہ کو اس کا حصہ اسی طرح دیں گے جیسے ان کی زندگی میں انہیں دیا جاتا، یعنی کل ترکے کا چھٹا حصہ۔
پھر بیٹے کی وراثت میں سے ملنے والے حصے کو والدہ کے کل ترکے -اگر ہو تو-میں شامل کیا جائے گا، تو یہ والدہ کا مجموعی ترکہ ہو گا ، اب والدہ کے ترکہ کو مذکورہ وارثوں میں تقسیم کیا جائے : 3 بیٹے اور 2 بیٹیاں، اس تقسیم میں لڑکے کو 2 حصے اور لڑکی کو ایک حصہ ملے گا۔
جبکہ یہ مسئلہ کہ آپ نے پہلے اپنے بھتیجوں کے حق میں اپنے حصے سے دستبردار ہونے کی نیت کی اور پھر آپ نے نیت بدل لی تو اس میں آپ پر کوئی حرج اور گناہ نہیں ہے؛ کیونکہ زیادہ سے زیادہ اس میں یہ ہے کہ آپ نے صرف نیت کی تھی، اور جمہور اہل علم کے موقف کے مطابق ہبہ اسی وقت مکمل ہوتا ہے جب کوئی اسے قبول کر کے اپنے قبضے میں لے لے۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات