كيا موجودہ وقت ميں جنگ كے دوران قيد كى گئى عورت كے ساتھ بغير شادى جماع كرنا جائز ہے ؟
جنگى قيدى عورت كے ساتھ جماع كرنا
سوال: 20085
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
مرد كے ليے عورتوں ميں سے اس كى بيوى اور لونڈى كے علاوہ كوئى عورت حلال نہيں، اور بيوى بھى اس وقت حلال ہوتى ہے جب شرعى طريقہ سے شادى ہو.
اور لونڈى جب مرد كى ملك يمين ـ يعنى اس كى ملكيت بنے ـ بھى اصلا جنگ كى اندر قيد ہونے كى بنا پر ہوتى ہے، اور مسلمان اگر لڑائى اور جھاد ميں شريك ہوا ہو تو وہ يہ لونڈى حكمران اور قائد كے ذريعہ حاصل كرتا ہے، يا پھر اس كے مالك سے خريد كر، اور يہ لونڈى صرف ملكيت ميں آنے سے ہى استبراء رحم، يعنى ايك حيض يا اگر حاملہ ہو تو حمل وضع ہونے كے بعد اس كے حلال ہو جاتى ہے.
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اور وہ لوگ جو اپنى شرمگاہوں كى حفاظت كرتے ہيں، مگر اپنى بيويوں يا لونڈيوں سے، يقينا يہ ملامتى نہيں المؤمنون ( 6 ) اور المعارج ( 30 ).
ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اوطاس كے قيديوں كے متعلق فرمايا:
” كسى حاملہ عورت كے ساتھ وضع حمل سے قبل وطئ نہ كى جائے، اور نہ ہى غير حاملہ كے ساتھ جب تك اسے ايك حيض نہ آ جائے “
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2157 ) شيخ البانى رحمہ اللہ نے اس حديث كو ارواء الغليل حديث نمبر ( 187 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.
اور سوال نمبر (10382 ) كے جواب ميں يہ بيان ہو چكا ہے كہ: اسلام نے مرد كے ليے اپنى لونڈى سے مجامعت كرنى مباح كى ہے، چاہے اس كى ايك بيوى يا ہو كئى بيوياں يا اس كى بيوى نہ بھى ہو.
اور سوال نمبر (5707 ) اور (12562 ) كے جواب ميں بيان كيا گيا ہے كہ: جھاد ميں لونڈيوں كى تقسيم حكمران اور ولى الامر كى جانب سے تقسيم كى جائينگى، كيونكہ ہو سكتا ہے وہ فديہ لے كر يا احسان كرتے ہوئے انہيں چھوڑنے كا حكم دے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات