میرے اس حدیث (جمعہ کے دن ایک ایسا لمحہ ہے ، اُس لمحے میں کوئی بھی مسلمان نماز میں کھڑے ہوکر اللہ تعالی سے دعا مانگے تو اللہ اسے وہی عنائت فرماتا ہے)کے متعلق کچھ سوالات ہیں:
1- جمعہ کے دن میں عصر کے بعد قبولیت کی گھڑی تلاش کرنے کیلئے دو رکعت نماز پڑھ سکتا ہوں؟
2- حدیث میں مذکور " قائم يصلي " یعنی: " نماز میں کھڑے ہونے" سے کیا مراد ہے؟ کیا مجھے لازمی طور پر امام کے خطبہ دیتے ہوئے بھی کھڑے ہوکر دو رکعت نماز اد اکرنا ہوگی؟ یا میں کیا کرو؟
3- اگر کوئی شخص جمعہ کی رات شروع ہوتے ہی کھڑے ہوکر جمعہ کے آخری لمحہ یعنی عصر کے بعد تک دعا کرتا رہے، تو کیااسکا مطلب یہ ہوگا کہ اس نے مکمل جمعہ کے دن دعا مانگی ہے؟ کیونکہ اس نے ساری رات بیداری میں گزاری ہے، سویا نہیں۔
جمعہ کے دن میں وقتِ قبولیت کیسے تلاش کرے؟
سوال: 201556
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
احادیث مبارکہ میں ثابت ہے کہ جمعہ کے دن قبولیت کی گھڑی ہے، جس مسلمان کو بھی وہ مل جائے تو اس لمحے خیر کی دعا میں مانگی ہوئی چیز ہی اللہ کی طرف سے عنائت ہوتی ہے۔
علمائے کرام کے اس لمحے کی تحدید کیلئے مختلف اقوال ہیں، جو کہ چالیس سے بھی زیادہ ہیں ، ان میں سے دو قول زیادہ صحیح ہیں:
1- یہ لمحہ امام کے بیٹھنے سے لیکر نماز مکمل ہونے تک ہے۔
2- یہ لمحہ نمازِ عصر کے بعد ہے، یہ قول ان دونوں اقوال میں زیادہ قوی ہے۔
دوم:
قبولیت کے وقت کیلئے امیدِ واثق ، جمعہ کے دن کے آخری لمحات کے بارے میں ہے؛ جیسے کہ ابو داود (1048) میں جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: (جمعہ کا دن بارہ ساعات پر مشتمل ہے، ان میں سے ایک لمحہ ایسا ہے جس میں کوئی مسلمان اللہ تعالی سے کچھ بھی مانگے تو اسے اللہ تعالی عطا فرما دیتا ہے، تم اسے جمعہ کے دن عصر کے بعد آخری لمحہ میں تلاش کرو) اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے "صحیح ابو داود" میں صحیح قرار دیا ہے۔
ایسے ہی ابو داود کی حدیث(1046) میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : "عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے اس گھڑی کے بارے میں علم ہے وہ کونسی ہے۔
ابو ہریرہ کہتے ہیں میں نے ان سے کہا: مجھے بھی اسکے بارے میں بتلاؤ۔
تو عبد اللہ بن سلام نے کہا: یہ گھڑی جمعہ کے دن کا آخری لمحہ ہے۔
میں نے کہا: یہ گھڑی جمعہ کے دن کا آخری لمحہ کیسے ہوسکتی ہے؟، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ: (نماز کی حالت میں کوئی بھی مسلمان بندہ اسے پالے) اور اس گھڑی میں [یعنی غروب آفتاب سے پہلے] نماز نہیں پڑھی جاتی!
عبد اللہ بن سلام نے کہا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نہیں ہے؟! (جو شخص بیٹھ کر نماز کا انتظار کرتا ہے، تو وہ نماز ہی کی حالت میں ہے یہاں تک کہ نماز پڑھ لے)؟
میں نے کہا: جی ہاں! یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔
تو عبد اللہ نے کہا: تو [یہاں نماز سے] یہی مراد ہے۔
اس واقعہ کو البانی رحمہ اللہ نے صحیح ابو داود میں صحیح قرار دیا ہے۔
حافظ ابن رجب رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"سعید بن منصور نے اپنی سند کیساتھ روایت کیا ہے کہ ابو سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں:"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام ایک جگہ جمع ہوئے، اور جمعہ کے دن قبولیت کی گھڑی کے بارے میں گفتگو شروع ہوگئی، تو مجلس ختم ہونے سے پہلے اس بات پر متفق ہوچکے تھے کہ یہ جمعہ کے دن کے آخری وقت میں ہے" انتہی
"فتح الباری" (8/ 302-303)
مزید تفصیل کیلئے آپ سوال نمبر: (82609) ، اور (114609) ، اور(112165) کا مطالعہ بھی کریں۔
سوم:
نمازِ تحیۃ المسجد ہر وقت میں ادا کرنی جائز ہے، حتی کہ ممنوعہ اوقات میں بھی؛ کیونکہ یہ ایک سببی نماز ہے، جو کہ سبب پائے جانے کے وقت ادا کی جاتی ہے، اسکے لئے آپ سوال نمبر: (306) کا مطالعہ کریں۔
چنانچہ ایک مسلمان جمعہ کے دن عصر کے بعد کسی بھی وقت مسجد میں داخل ہو تو تحیۃ المسجد کی دو رکعات پڑھ سکتا ہے، بلکہ اسے ایسا ہی کرنا ہوگا۔
لیکن یہ جائز نہیں ہے کہ مسجد میں اپنی جگہ سے کھڑے ہوکر مطلق نوافل شروع کردے، کیونکہ اس وقت مطلقا نفل ادا کرنا منع ہے۔
چہارم:
بخاری (935) اورمسلم (852) نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے دن کا ذکر فرمایا، اور کہا: (اس دن ایک ایسی گھڑی ہے ، جو کوئی مسلمان اس گھڑی میں کھڑے ہوکر نما زپڑھ رہا ہو اور اللہ تعالی سے کچھ بھی مانگ لے تو اللہ تعالی اسے وہی عطا فرماتا ہے)اور آپ نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے بتلایا وہ تھوڑا سا وقت ہے"
یہاں " کھڑے ہوکر نما زپڑھ رہا ہو " سے مراد مسجد میں بیٹھ کر ذکر الہی و دعا میں مشغول ہو کر نماز کا انتظار مراد ہے؛ کیونکہ جو شخص مسجد میں بیٹھ کر نماز کا انتظار کرے وہ بھی نماز میں ہوتا ہے۔
نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"قاضی کہتے ہیں: سلف کا حدیث میں مذکور (قائم یصلی ) یعنی " کھڑے ہوکر نما زپڑھ رہا ہو " کے مفہوم کے بارے میں اختلاف ہے، چنانچہ کچھ کہتے ہیں کہ: (یصلی )کا معنی دعا کرنا ہے، اور (قائم)کا مطلب مسلسل ، اور دوام ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کے فرمان میں ہے: ( مَا دُمْتَ عَلَيْهِ قَائِمًا ) یعنی "جب تک آپ اس پر مسلسل کھڑے رہیں"" اختصار کیساتھ اقتباس مکمل ہوا۔
اسی سے ملی جلتی گفتگو "فتح الباری" (2/ 416) ، اور "مرقاة المفاتيح" (3/ 1012) میں بھی موجود ہے۔
پنجم:
یہاں قبولیت کی گھڑی تلاش کرنے سے مراد یہ نہیں ہے کہ انسان اپنے آپ پر سختی کرے، اور رات شب بیداری، اور سارا دن دعا میں گزار دے، کیونکہ یہ ایسی سختی ہے جو کہ سنت نبوی سے متصادم ہے۔
یہ عمل بھی سنت نہیں ہے کہ انسان ساری رات قیام اللیل کرے، اور نماز و دعا میں مشغول رہے، بلکہ قیام اور آرام دونوں کو جمع کرے۔
اور صرف جمعہ کی رات کو قیام کیلئے مختص کرنا ویسے ہی ناجائز ہے؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (دیگر راتوں میں سے جمعہ کی رات کو قیام اللیل کیساتھ مختص مت کرو، اور دیگر ایام میں سے جمعہ کے دن کو روزوں کیساتھ مختص مت کرو، الا کہ کوئی شخص پہلے سے روزے رکھتا آرہا ہو، تو وہ روزہ رکھ لے)مسلم (1144)
اس حدیث سے پتا چلتا ہے کہ آپکے بیان کردہ طریقے کے مطابق اس گھڑی کو تلاش نہیں کیا جائے گا۔
ہاں اگر کوئی مسلمان فجر کی نماز کے بعد سے مسجد میں اتنی دیر بیٹھا رہے جتنی اللہ تعالی نے اسے توفیق دی ، پھر جمعہ کی ادائیگی کیلئے جلد از جلد پہلی گھڑی میں جامع مسجد پہنچے، اور امام کیساتھ نماز جمعہ ادا کرے، پھر جمعہ کے دن عصر سے مغرب تک مسجد میں بیٹھا رہے، تو وہ ان شاء اللہ قبولیت والی گھڑی پا لے گا، اور امید واثق ہے کہ اللہ تعالی اسے اس بابرکت گھڑی سے محروم نہیں کریگا۔
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات