سوال: زاہدانہ تصوف کیا ہے؟
کیا حسن بصری رحمہ اللہ کی صوفیوں کی طرف نسبت کرنا درست ہے؟
زاہدنہ تصوف، اور فلسفی تصوف میں کیا فرق ہے؟
کیا حسن بصری رحمہ اللہ صوفی تھے؟
سوال: 201911
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
سب سے پہلے یہ بات ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ لفظ “تصوّف” اسلام مکمل ہونے کے بعد داخل ہوا ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپکے صحابہ کرام اپنے دَورمیں اس لفظ سے بالکل نا آشنا تھے، بلکہ پہلی تین افضل ترین صدیوں تک یہ لفظ غیر معروف رہا۔
چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“لفظ “صوفیت” پہلی تین صدیوں میں مشہور نہیں تھا، بلکہ یہ لفظ زبان زد عام ان تین صدیوں کے بعد ہوا ہے، اس لفظ کا استعمال ایک سے زائد ائمہ کرام اور شیوخ سے ملتا ہے، مثلاً: امام احمد بن حنبل، ابو سلیمان دارانی رحمہما اللہ وغیرہ، اسی طرح سفیان ثوری رحمہ اللہ کے بارے میں بھی منقول ہے کہ انہوں نے بھی اس بارے میں گفتگو کی ہے، جبکہ کچھ لوگ تصوف کے بارے میں گفتگو کرنےو الوں میں حسن بصری رحمہ اللہ کو بھی شامل کرتے ہیں”
” مجموع الفتاوى ” (11/ 5)
چنانچہ مذکورہ بالا بیان کے مطابق حسن بصری رحمہ اللہ کو موجودہ تصوّف کی اصطلاح کے مطابق صوفی کہنا درست نہیں ہے؛ کیونکہ موجودہ تصوّف کی اصطلاح کا حسن بصری رحمہ اللہ کے زمانے میں وجود ہی نہیں تھا۔
دوم:
صوفیوں کی کتابوں اور کتب ِرقائق[تزکیہ نفس] میں حسن بصری یا دوسرےسلف صالحین جو امت ِمسلمہ میں صدق و امانت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں،ان کی نسبت سے ذکر شدہ “تصوّفِ زہد” کا مطلب یہ ہے کہ:
اخلاقیات، زہد، اور تزکیہ نفس وغیرہ کا اہتمام کیا جائے، کیونکہ سلف صالحین کی گفتگو، تحریرات و نگارشات، قصص و واقعات میں ان چیزوں کی بھرمار ہے، خصوصا حسن بصری رحمہ اللہ سے اس بارے میں بہت ہی مفید اشیاء منقول ہیں، اور حقیقت میں یہی وجہ ہے کہ صوفیوں کی کتابوں میں ان کے اقوال کو جگہ بھی دی گئی ہے۔
اب روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ تصوّف کا یہ معنی و مفہوم تو عین دین اسلام کا جز ہے، لہذا یہ چیز ہر مسلمان میں ہونی چاہیے۔
سوم:
فلسفی تصوف اصل میں ابتدائی تصوّف کے مفہوم اور تصوّر میں بدعات اور خودساختہ نظریات کو پروان چڑھانے کا نتیجہ ہے، اس کے ساتھ ساتھ مسلکی بدعات نے بھی جب اپنا اثر ظاہر کیا، تو تصوّف میں مزید بگاڑ پیدا ہوا، اور تصوّف کے حقیقی وسلفی راستے سے منحرف ہونے کی وجہ سے :
سب سے پہلے: عبادت کے بدعتی طور طریقے ایجاد ہوئےجو حقیقی تصوف کو سلف صالحین کے طریقوں سے کوسوں دور لے گئے۔
اور دوسری آفت جو ظاہر ہوئی کہ : خود ساختہ علمی مسائل ، تصوّرات اور مفاہیم جو کہ بدعتی علمی منہج کے باعث آئے تھے، دین ِاسلام میں داخل ہو گئے ، اور یہ سب اس وقت ظہور پذیر ہوا جب حصولِ علم کویونانی ، اور فلسفہ ِبت پرستی کے ساتھ ، اورباطنی اور غنوصی [قدیم رومانوی عقائد پر مشتمل پیچیدہ فکری مذہب جو وحی کا یکسر انکار کرتے ہوئے عقل کو ہر شے کامآخذ بناتا ہے۔] نظریات کے ساتھ منسلک کیا گیا ۔
ابتدائی طور پر تصوّف کی ابتدا خالص دینی تحریک کی شکل میں رونما ہوئی ، جو کہ تیسری صدی ہجری میں عالم اسلامی میں چند افراد کے توسط سے پھیلی، اُس وقت ناز و نعم میں ڈوبے ہوئے لوگوں کو زہد و عبادت کی شدّ و مدّ کیساتھ دعوت دی جاتی تھی، پھر اس کے بعد بات مزید آگے بڑھی اور انہی لوگوں کے ناموں پر آج کل کے صوفی سلسلوں کی بنیاد رکھ دی گئی، صوفی لوگ شرعی وسائل استعمال کیے بغیر!! تربیتِ نفس کو پروان چڑھاتے ہوئے کشف و مشاہدہ کے ذریعے معرفتِ الہی تک پہنچنا چاہتے ہیں، یہی وہ نقطہ تحویل تھا جس کی وجہ سے صوفیوں کا طریقہ کار بھی ہندی، فارسی، اور یونانی مختلف وثنی فلسفوں کے ساتھ جا ملا” انتہی
” الموسوعة الميسرة في الأديان والمذاهب والأحزاب المعاصرة “(1/ 249)
جدید فلسفہ تصوّف کی گمراہی اور صحیح منہج سے اسکی دوری کا اندازہ آپ اس میں موجود عقائد اور طُرقِ عبادت سے لگا سکتے ہیں ، چنانچہ جس قدر یہ کتاب وسنت ، منہج صحابہ اور سلف صالحین کے زہد و ورع کے طریقہ کار کے متصادم نظر آتے ہیں اسی قدر انکا فلسفہ ِ تصوف دین سے دوری پر ہے ،حتی کہ بسا اوقات صوفیوں کے بعض گروہوں میں صحیح عقائد اور دین کے بنیادی نظریات سے متصادم ایسے امور پائے جاتے ہیں کہ جن کی وجہ سے وہ دین ِ اسلام سے خارج ہوجاتے ہیں۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“صوفیاء کے جن اکابر مشایخ کاتذکرہ ابو عبد الرحمن سُلَمی نے “طبقات الصوفیہ” میں اور ابو القاسم قُشیری نے “الرسالہ” میں کیا ہے، یہ سب مذہب اہل السنہ والجماعہ اور مذہب اہل الحدیث پر تھے، مثلاً: فضیل بن عیاض، جنید بن محمد [بغدادی]، سہل بن عبد اللہ تستری، عمرو بن عثمان مکی، ابو عبد اللہ محمد بن خفیف شیرازی وغیرہ، انکا کلام سنت و عقائدصحیحہ کے مطابق ہے، اور انہوں نے اس بارے میں کتب بھی تصنیف کی ہیں”
لیکن کچھ متاخرین صوفی عقائد کے کچھ فروعی مسائل میں اہل کلا م کے طریقے پر تھے، تاہم ان میں سے کوئی بھی فلسفی مذہب کا پیروکار نہیں تھا۔
فلسفہ متاخر صوفیوں میں ظاہر ہوا ہے، جس کی وجہ سے صوفی لوگ کبھی تو اہل الحدیث کے صوفیوں کے نظریات اپناتے ، یہ قسم سب سے اچھے اور بہترین صوفیوں کی ہے، اور بسا اوقات اہل کلام کے صوفیوں کے نظریات اپناتے ، صوفیوں کی یہ قسم پہلی قسم سے کمتر ہے، اور کچھ فلسفی صوفیوں کے نظریات پر ملحدانہ روش پر قائم تھے” انتہی
“الصفدية” (1/267)
مزید استفادہ کیلئے سوال نمبر: (4983) اور (166464) کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات