میری دو بیٹیاں ہیں بڑی کی عمر چھ سال ہے اور چھوٹی کی عمر تین سال ہے، میں نے ان کا عقیقہ کرنے کا ارادہ کیا تو میرے والد نے قصاب سے رابطہ کیا اور میرے لیے 400 ڈالر کا مینڈھا خرید لیا، لیکن قصاب کو علم نہیں تھا کہ یہ عقیقے کا جانور ہے، قصاب نے اسے ذبح خانہ میں ذبح کیا اور گوشت بنا کر ہمارے پاس پہنچ گیا، تو میں نے عقیقے کے طور پر جانور ذبح کرنے کی نیت کی ہوئی تھی تو میں نے اس کا کچا گوشت ہی رشتہ داروں اور غریب لوگوں میں تقسیم کر دیا، تو کیا یہ جائز ہے کہ عقیقہ سلاٹر ہاؤس یا ذبح خانہ میں ذبح کیا جائے؟ یا گھر میں ہی ذبح کرنا ضروری ہے؟ اور جانور ذبح کرتے وقت جس کا عقیقہ کیا جا رہا ہے اس کا نام بھی لیا جائے؟ اگر ایسا کرنا جائز نہیں ہے تو کیا میرے لیے اب یہ جائز ہے کہ میں اس مینڈھے کو عام صدقہ شمار کروں اور پھر ایک اور مینڈھا خرید کر اسے عقیقے کے طور پر ذبح کروں؟ اگر مجھ پر ایک اور جانور بطور عقیقہ ذبح کرنا ضروری ہے تو کیا میرے لیے یہ جائز ہے کہ مینڈھے کی بجائے چھوٹی عمر کے دو بھیڑ کے بچے لے لوں؛ کیونکہ ایک مینڈھے کی قیمت میں دو چھوٹی عمر کے بھیڑ کے بچے آ جائیں گے، اور میں ایک ہی بار دونوں بیٹیوں کی طرف سے عقیقہ کر دوں گی۔
جانور کی عمر اور عیوب سے پاک ہونے کی عقیقے میں بھی وہی شرائط ہیں جو قربانی میں ہیں۔
سوال: 202306
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
الحمدللہ:
اول:
عقیقہ یا عید کی قربانی کے لئے یہ شرط نہیں ہے کہ ذبح کرتے ہوئے عید کی قربانی یا عقیقہ کرنے والے کا نام لیا جائے، اسی طرح یہ بھی شرط نہیں ہے کہ انہیں گھر میں ذبح کیا جائے، بلکہ اگر ان جانوروں کو عید کی قربانی کرنے والے یا عقیقہ کرنے والے کے علاقے میں بھی ذبح نہ کیا جائے تو تب بھی جائز ہے ۔
اہم اور ضروری بات یہ ہے کہ وہ نیت اس بات کی کرے کہ یہ قربانی ہے یا عقیقہ، تاہم یہاں پر یہ شرط نہیں ہے کہ قصاب یا ذبح کرنے والے کو علم ہو کہ یہ جانور عقیقے کا ہے یا قربانی کا۔
اس بنا پر آپ کی بڑی بیٹی کی طرف سے مینڈھا ذبح کرنے پر ان کا عقیقہ ہو گیا ہے۔
دوم:
عقیقہ کرنے کے لئے بکری یا دنبے میں سے کسی مخصوص نوعیت کا جانور ہونا ضروری نہیں ہے، ان میں سے نر یا مادہ کوئی بھی جانور ذبح کیا جاسکتا ہے، اسی طرح بھیڑ یا دنبہ بھی ذبح کیا جا سکتا ہے؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان عام ہے: (لڑکے کی طرف سے دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک[بکری عقیقے میں ذبح کی جائے]، ان کے نر یا مادہ ہونے سے تم پر کوئی حرج نہیں۔) اس حدیث کو ترمذی : (1516) نے روایت کیا ہے اور البانی ؒنے اسے صحیح سنن ترمذی میں صحیح قرار دیا ہے۔
تاہم عقیقے کے لئے بھی وہی شرائط معتبر ہیں جو قربانی میں ہوتی ہیں، مثلاً: عیب سے پاک ہو اور اس کی عمر بھی قربانی والی ہو۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ “المغنی” (7/366)میں کہتے ہیں:
“عقیقے میں ان جانوروں کے ان تمام عیوب سے بچا جائے گا جن سے قربانی میں بچا جاتا ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ:عقیقے کے جانور کا عمر اور دیگر عیوب میں وہی حکم ہے جو قربانی کے جانور کا ہوتا ہے چنانچہ ایسے عیوب والے تمام جانور عقیقے میں منع ہوں گے جنہیں قربانی میں منع کیا گیا ہے۔۔۔ لہذا بھیڑ کے چھ ماہ سے کم عمر کا بچہ اور بکریوں میں سے دو دانتا سے کم عمر اس میں کفایت نہیں کرے گا ، عقیقے میں ایسا کانا جانور کفایت نہیں کرے گا جس کا کانا پن واضح ہو، لنگڑا جانور جس کا لنگڑا پن واضح ہو، بیمار جانور جس کی بیماری واضح ہو، اور اتنا کمزور جانور کہ اس میں گودا نہ ہو، اسی طرح ایسا جانور جس کا آدھا یا آدھے سے بھی زیادہ سینگ یا کان کٹ گیا ہو۔” ختم شد
اور عقیقے کے لئے ضروری عمر یہ ہے: اونٹ پانچ سال کا ہو، گائے کی عمر دو سال ہو، بکری کی عمر ایک سال جبکہ بھیڑ کا چھ ماہ کا بچہ بھی کفایت کر جائے گا۔
اس بنا پر:
آپ کے ذمے یہ واجب نہیں کہ آپ مہنگا جانور ذبح کریں، آپ بس اس بات کا اہتمام کریں کہ عقیقے میں ایسا جانور ذبح کیا جائے جس میں قربانی کے لئے معتبر عمر پائی جائے اور وہ عیوب سے بھی پاک ہو۔
آپ ان شاء اللہ بعد میں جو عقیقہ کریں گی وہ چھوٹی بیٹی کی جانب سے ہو گا، جبکہ بڑی بیٹی کی طرف سے جو جانور ذبح کیا گیا ہے اس سے بڑی بیٹی کا عقیقہ ہو گیا ہے۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (41899) اور (82607) کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات