كيا يہ اميد كى جا سكتى ہے كہ اگر ہم قسم نہ كھائيں اور نہ ہى نذر مانيں كہ يہ گناہ دوبارہ كبھى نہيں كرينگے تو ہمارے گناہ معاف كر ديے جائيں گے؟
ميں يہ اس ليے دريافت كر رہا ہوں كہ جب آپ كو علم ہو كہ ممكن ہے آپ دوبارہ يہ گناہ كرليں، تو كيا قسم يا نذر كا كوئى فائدہ ہو گا كہ آپ دوبارہ يہ گناہ نہيں كرينگے؟
يہ علم ميں رہے كہ قسم توڑنے كا كفارہ تين يوم كے روزہ ركھنا ہے ؟
كيا قسم توبہ كے ليے شرط ہے
سوال: 20661
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اللہ جل جلالہ كى قدرت عظيم ہے، اور اس كى بادشاہى عظيم ہے، اس كے ليے كوئى گناہ بھى بڑا نہيں كہ وہ اسے بخشے، چاہے يہ گناہ كوئى بھى ہو جب بندہ اس سے توبہ كرلے تو اللہ تعالى اسے معاف كر ديتا ہے.
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
( ميرى جانب سے ) كہہ ديجئے كہ اے ميرے بندو! جنہوں نے اپنى جانوں پر زيادتى كى ہے تم اللہ تعالى كى رحمت سے نااميد نہ ہو جاؤ، يقينا اللہ تعالى سارے گناہوں كو بخشن دينے والا ہے الزمر ( 53 ).
لھذا توبہ كا دروازہ اس وقت تك مفتوح ہے جب تك آدمى موت كو نہيں ديكھ ليتا اور اور جب تك سورج مغرب سے طلوع نہيں ہوتا.
ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” اللہ تعالى بندے كى توبہ اس وقت تك قبول فرماتا ہے جب تك وہ غرغرہ شروع نہيں ہوتا”
اسے امام احمد نے مسند احمد ( 2 / 132 – 153 ) ميں اور ترمذى ( 3537 ) ميں روايت كيا اور اسے حسن كہا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے بھى صحيح الترغيب ( 3 / 318 ) حديث نمبر ( 3413 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
اور ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” جو شخص بھى مغرب سے سورج طلوع ہونے سے قبل توبہ كرے اللہ تعالى اس كى توبہ قبول كرے گا ”
صحيح مسلم حديث نمبر ( 3073 ).
لہذا مسلمان شخص كو چاہيے كہ وہ اس فرصت كو غنيمت سمجھے، اور اللہ جل جلالہ كى جانب سے يہ فضل عظيم ہے اس ليے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے مہلت كے وقت ميں ہى توبہ جلد كر لينى چاہيے، اور اسے مؤخر نہيں كرتے ہوئے يہ نہيں كہنا چاہيے كہ ميں توبہ كرلونگا.
اور توبہ كے ليے واجب اور ضرورى ہے كہ يہ توبہ سچى اور پكى ہونى چاہيے، جيسا كہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اے ايمان والو! اللہ تعالى كى طرف سچى اور پكى اور خالص توبہ كرو، قريب ہے كہ تمہارا رب تمہارى برائيوں اور گناہوں كو معاف كردے، اور تمہيں ايسے باغات ميں داخل كرے جس كے نيچے سے نہريں جارى ہيں، اس دن جس ميں اللہ تعالى نبى اور اس كے ساتھ ايمان والوں كو رسوا نہيں كرے گا، ان كا نور ان كے سامنے، اور ان كے دائيں دوڑ رہا ہوگا، وہ يہ دعائيں كرتے ہونگے اے ہمارے رب ہميں ہميں كامل نور عطا فرما، اور ہميں بخش دے، بلا شبہ تو ہر چيز پر قادر ہے التحريم ( 8 ).
علماء كرام نے خالص توبہ اسے كہا ہے جس ميں پانچ شرطيں پائى جائيں:
1 – يہ توبہ اللہ تعالى كے ليے خالص ہو.
2 – جو كچھ اس سے ہو چكا ہے وہ اس پر نادم اور غمزدہ ہو، اور اس كى تمنا ہو كہ ايسا كام اس سے نہيں ہونا چاہيے تھا.
3 – فورى طور پر اسے وہ معصيت چھوڑنا ہو گى، اگر تو وہ معصيت كوئى حرام فعل ہے تو اسے اسى وقت چھوڑنا ہو گا، اور اگر وہ معصيت كسى واجب فعل كو ترك كر كے كى ہے تو اسے فورى طور پر كرنا ہو گا، اور اگر وہ معصيت كسى مخلوق كے حقوق كے متعلقہ ہے تو توبہ اس وقت تك صحيح نہيں ہو گى جب تك اس حق سے چھٹكارا حاصل نہيں كيا جاتا.
4 – اسے يہ عزم كرنا ہوگا كہ وہ آئندہ اس معصيت كو دوبارہ نہيں كرے گا.
5 – يہ توبہ قبوليت كا وقت نكل جانے كے بعد نہ ہو، جيسا كہ اوپر بيان ہو چكا ہے.
ديكھيں: مجالس شہر رمضان لابن عثيمين رحمہ اللہ ( 143 ).
تو اس سے معلوم ہوا كہ گناہ كى طرف نہ پلٹنا توبہ كى شرط ميں نہيں، بلكہ توبہ كى شرط تو يہ ہے كہ وہ يہ پختہ اور يقينى اور سچا عزم كرے كہ آئندہ وہ يہ كام نہيں كرےگا.
لہذا اگر بندہ اپنے اس گناہ سے توبہ كر لے، اور پھر شيطان اس سے كھيلتا ہوا اسے دوبارہ اس گناہ پر لے آئے ـ لا حول ولا قوۃ الا باللہ ـ تو اسے اللہ تعالى رحمت سے نااميد نہيں ہونا چاہيے، اور ايك بار پھر وہ توبہ كرے اللہ تعالى اس كى توبہ قبول كرے گا، وہ اللہ سبحانہ وتعالى بہت وسيع فضل اور عظيم مغفرت و بخشش والا ہے.
ابو موسى اشعرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” بلا شبہ اللہ تعالى رات كو اپنے ہاتھ پھيلاتا ہے تا كہ دن كا گنہگار توبہ كر لے، اور دن كو اپنے ہاتھ پھيلاتا ہے تا كہ رات كا گنہگار توبہ كرلے؛ حتى كہ سورج مغرب كى جانب سے طلوع ہو جائے”
صحيح مسلم حديث نمبر ( 2759 ).
اور ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ انہوں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا:
” ايك بندے نے گناہ كر ليا تو كہنے لگا: اے ميرے رب ميں نے گناہ كر ليا ہے تو مجھے بخش دے، تو اس كا رب كہتا ہے: كيا ميرے بندے كو علم ہے كہ اس كا رب ہے جو گناہ بخشتا ہے، اور اس پر مؤاخذہ بھى كرتا ہے، ميں نے اپنے بندے كو بخش ديا، پھر جتنا اللہ تعالى نے چاہا وہ بندہ ركا رہا پھر اس سے گناہ ہو گيا تو كہنے لگا: ميرے رب ميں نے گناہ كر ليا ہے مجھے معاف كردے، تو اللہ تعالى كہتا ہے: كيا ميرے بندے كو علم ہے كہ اس كا كوئى رب ہے جو گناہوں كو بخشتا ہے اور ان كى سزا بھى ديتا ہے، ميں نے اپنے بندے كو بخش ديا … ” الحديث
صحيح بخارى حديث نمبر ( 7505 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2753 )
ليكن عقلمند مسلمان شخص كو چاہيے كہ وہ اللہ تعالى كے ساتھ توبہ ميں سچائى اختيار كرے، دوبارہ اس كام كو نہ كرنے كے عزم ميں سچا ہو، اور جو اس سے ہو چكا ہے اس پر نادم ہو، اور اس كى يہ توبہ صرف زبانى ہى نہيں بلكہ اعضاء كےساتھ ہونى چاہيے، كيونكہ اعضاء كے بغير صرف زبانى توبہ كذاب اور جھوٹوں كى توبہ ہوتى ہے.
اور رہا يہ كہ قسم كھانا يا نذر ماننا كہ بندہ آئندہ يہ گناہ نہيں كرےگا، تو اس كى كوئى ضرورت نہيں، كيونكہ مندرجہ بالا شروط كى موجودگى ميں سچى اور خالص توبہ حاصل ہو جاتى ہے.
ايك چيز كى طرف اشارہ كرنا باقى ہے جس كا سائل نے سوال ميں ذكر كيا ہے كہ: جس نے قسم توڑى اسے تين روزے ركھنا ہونگے، تو يہ على الاطلاق نہيں ہے، بلكہ قسم توڑنے والے شخص كا كفارہ يہ ہے كہ: ايك غلام آزاد كرے، يا دس مسكينوں كو كھانا كھلائے، يا ان كے كپڑے مہيا كرے، اور اگر وہ اس كى استطاعت نہيں ركھتا تو پھر تين يوم كے روزے ركھے.
لھذا روزے تو اس وقت ہيں جب وہ پہلى تين اشياء كى طاقت نہ ركھے، ليكن ان تينوں ميں سے كسى ايك كے پورا كرنے كى استطاعت كى حالت ميں اس كے ليے روزے ركھنا جائز نہيں، اس كى دليل مندرجہ ذيل فرمان بارى تعالى ہے:
اللہ تعالى تمہارى قسموں ميں لغو قسم پر تمہارا مؤخذہ نہيں كرتا، ليكن اس پر مؤخذہ فرماتا ہے كہ تم جن قسموں كو مضبوط كردو، اس كا كفارہ دس محتاجوں كو كھانا دينا ہے اوسط درجے كا جو اپنے گھروالوں كو كھلاتے ہو يا ان كو كپڑا دينا، يا ايك غلام يا لونڈى آزاد كرنا، ہے، اور جو كوئى نہ پائے تو وہ تين دن كے روزے ركھے، يہ تمہارى قسموں كا كفارہ ہے جب كہ تم قسم كھا لو، اور اپنى قسموں كا خيال ركھو! اسى طرح اللہ تعالى تمہارے واسطے اپنے احكام بيان فرماتا ہے تا كہ تم شكر كرو المآئدۃ ( 89 ).
اتنا ہى كافى ہے، واللہ تعالى اعلم، اور اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور ان كے صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب