ميں ايك كمپنى ميں ملازمت كرتا ہوں جس نے پانچ برس قبل اپنے ملازمين كو كچھ رقم دى اور يہ رقم بنك كے ايسے اكاؤنٹ ميں ركھا جو پانچ برس تك استعمال نہيں كيا جا سكتا، اور اس رقم پر فوائد مل رہے ہيں، وہ يہ مال ملازم كو پانچ برس بعد يا پھر ريٹائرمنٹ كے بعد ديں گے، مجھے علم ہے كہ يہ حرام ہے ليكن ہميں كوئى اختيار حاصل نہيں.
چند ماہ بعد ميں كمپنى چھوڑ رہا ہوں اور معلوم كرنا چاہتا ہوں كہ ميں اس مال كا كيا كروں، كيا ميں اصل مال لوں اور فوائد صدقہ كردوں ؟
آپ سے گزارش ہے كہ ميرا تعاون كريں ميں گناہ كا مرتكب نہيں ہونا چاہتا.
سودى مال كا كيا كرے
سوال: 20695
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
پانچ برس بعد جو مال آپ ليں گے وہ اصل مال – جو كہ كمپنى كى طرف سے ادا كردہ ہے – اور سودى نفع – جسے آپ نے فائدہ كا نام ديا ہے – سے مل كر بنا ہے، اور اس ليے كہ سودى مال آپ كے ليے حلال نہيں لہذا آپ اصل مال سے زيادہ نہيں لے سكتے، آپ كو چاہيے كہ آپ يہ سودى فوائد بنك كے ليے ہى چھوڑ ديں.
اس ليے كہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:
اور اگر تم توبہ كرلو تو تمہارے ليے تمہارے اصل مال ہيں …. الآيۃ البقرۃ ( 279 ).
مزيد تفصيل كے ليےآپ سوال نمبر (22392 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
اور اگر بنك آپ كو حرام فوائد دينے كے بغير اصل مال نہ دے تو پھر آپ اسے لے ليں اور اسے مختلف قسم كے بھلائى اور نيكى كے كاموں ميں صرف كر كے چھٹكارا حاصل كرليں، اور آپ كے ليے ان فوائد كو استعمال كرنا اور ان سے فائدہ لينا جائز نہيں.
اس كى مزيد تفصيل كے ليے سوال نمبر (292 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات