کیا اسلام میں کوئي مؤقت شادی کی اصطلاح پائي جاتی ہے ؟
میرے ایک دوست نے پروفیسر ابوالقاسم جورجی کی کتاب پڑھی اوراس سے بہت ہی متاثر ہوا اورکہنے لگے کہ اگروہ شادی کرنا چاہتا ہے تو ان دونوں پر کوئي حرج نہیں کہ متعہ کرلیں ( اسلام میں مؤقت شادی کے لیے ایک شرعی اصطلاح ہے )
مؤقت شادی کی تعریف یہ ہے کہ : جب کسی کوپسند لگے تواس کے لیے اس میں کوئی حرج نہیں کہ وہ تھوڑی مدت کے لیے شادی کرلے ۔
تو کیا یہ ممکن ہے کہ آپ مجھے متعہ کے بارہ میں مزید معلومات دیں ، اور اس سوچ اور فکر پر کس فرقہ اورگروپ کا ایمان ہے ؟ گزارش ہے کہ قرآن وحدیث کے دلائل کے ساتھ وضاحت کریں ۔
نکاح متعہ اور اسے مباح کہنے والے رافضی شیعوں پر رد
سوال: 20738
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
متعہ – یا مؤقت شادی – یہ ہے کہ کوئي شخص کسی عورت سے کچھ معین وقت کے لیے کچھ مال کے عوض شادی کرے ۔
شادی میں اصل تویہ ہے کہ اس میں استمرار اورہمیشگی ہو ، اورمؤقت شادی – یعنی متعہ – شروع اسلام میں مباح تھی لیکن بعد میں اسے حرام کردیا گیا اورقیامت تک یہ حرام ہی رہے گی ۔
علی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ :
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح متعہ اور گھریلو گدھے کے گوشت کوخیبر کے دور میں منع فرمایا تھا ۔
اورایک ورایت میں ہے کہ :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ خیبر کے روز عورتوں سے متعہ کرنے اور گھریلو گدھے کے گوشت سے روک دیا ۔ صحیح بخاری حديث نمبر ( 3979 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1407 ) ۔
اورربیع بن سبرہ جھنی رحمہ اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ ان کے والد نے انہیں حدیث بیان کی کہ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( اے لوگو ! میں نے تمہیں عورتوں سے متعہ کرنے کی اجازت دی تھی ، اوراب اللہ تعالی نے اسے قیامت تک کے لیے حرام کر دیا ہے ، اب جس کے بھی پاس ان میں سے کچھ ہو وہ انہيں چھوڑ دے اورجو کچھ تم انہیں دے چکے ہو اس میں سے کچھ بھی واپس نہ لو ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1407 ) ۔
اللہ سبحانہ وتعالی نے تو شادی کو اپنی نشانی قرار دیا ہے جوغوروفکر اورتدبر کی دعوت دیتی ہے ، اوراللہ تعالی نے خاوند اوربیوی کے مابین مودت ومحبت اوررحمت پیدا کی ہے اورخاوند کے لیے بیوی کوسکون والی بنایا اوراولاد پیدا کرنے کی رغبت پیدا کی ہے ، اوراسی طرح عورت کے لیے عدت اوروراثت بھی مقرر فرمائي ہے ، لیکن یہ سب کچھ اس حرام متعہ میں نہیں پایا جاتا ۔
رافضیوں کے ہاں – یہ شیعہ ہی ہیں جومتعہ کے جواز کے قائل ہیں – متعہ کی جانے والی عورت نہ تو بیوی ہے اورنہ ہی لونڈی ، اوراللہ تعالی کا فرمان تو یہ ہے :
اورجولوگ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں سوائے اپنی بیویوں اورلونڈيوں کے یقینا یہ ملامتیوں میں سے نہیں ، جواس کے علاوہ کچھ اورچاہیں وہ ہی حد سے تجاوز کرنےوالے ہیں المؤمنون ( 5- 7 )
رافضی شیعہ نے متعہ کی اباحت پر ایسے دلائل سے استدلال کیا ہے جن میں سے کوئي دلیل بھی صحیح نہیں :
ا – اللہ سبحانہ وتعالی کافرمان ہے :
اس لیے جن سے تم فائدہ اٹھاؤ ان کا مقرر کیاہوا مہر دے دو النساء ( 24 ) ۔
ان کا کہنا ہے کہ :
اس آیت میں متعہ کے مباح ہونے کی دلیل ہے ، اوراللہ تعالی کے فرمان ان کے مہر کو اللہ تعالی کے فرمان استمتعتم سے متعہ مراد لینے کا قرینہ بنایا ہے کہ یہاں سے مراد متعہ ہے ۔
رافضيوں پر رد :
اس کا رد یہ ہے کہ : اللہ تعالی نے اس سے قبل آيت میں یہ ذکرکیا ہے کہ مرد پر کونسی عورتوں سے نکاح کرنا حرام ہے اور اس آیت میں مرد کے نکاح کے لیے حلال عورتوں کا ذکر کیا اورشادی شدہ عورت کواس کا مہر دینے کا حکم دیا ہے ۔
اوراللہ تعالی نے شادی کی لذت کویہاں پر استمتاع سے تعبیر کیا ہے ، اور حدیث شریف میں بھی اسی طرح وارد ہے :
ابو ھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( عورت پسلی کی مانند ہے اگر اسے سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو توڑ بیٹھوگے ، اوراگر اس سے فائد لینے کی کوشش کرو گے تو فائدہ اٹھاؤ گے ، اوراس میں کچھ ٹیڑھا پن ہے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 4889 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1468 ) ۔
اوپر والی آیت میں اللہ تعالی نے مہر کو اجرت سے تعبیر کیا ہے یہاں سے وہ مال مراد نہيں جومتعہ کرنے والا متعہ کی جانے والی عورت کوعقد متعہ میں دیتا ہے ، کتاب اللہ میں ایک اورجگہ پر بھی مہر کو اجرت کہا گيا ہے :
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہم نے تیرے لیے تیری وہ بیویاں حلال کردی ہیں جنہیں تو ان کے مہر دے چکا ہے الاحزاب ( 50 ) ۔
تویہاں پر اللہ تعالی نے آتیت اجورھن کے الفاظ بولے ہیں جس سے یہ ثابت ہوا کہ شیعہ جس آیت سے متعہ کا استدلال کررہے ہیں اس میں متعہ کی اباحت کی نہ توکوئي دلیل ہی ہے اورنہ ہی کوئي قرینہ ہی پایا جاتا ہے ۔
اوراگر بالفرض ہم یہ کہیں کہ آیت اباحت متعہ پردلالت کرتی ہے توہم یہ کہيں گےکہ یہ آیت منسوخ ہے جس کا ثبوت سنت صحیحہ میں موجود ہے کہ قیامت تک کے لیے متعہ حرام کردیا گيا ہے ۔
ب – ان کی دوسری دلیل یہ ہے کہ بعض صحابہ کرام سے اس کے جائز ہونے کی روایت ملتی ہے اورخاص کر ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے ۔
اس کا رد یہ ہے کہ : رافضی و شیعہ اپنی خواہشات پر چلتے ہیں اوران میں اتباع ھواء ہے ، وہ تو سب صحابہ کرام کو ( نعوذ باللہ ) کافر قرار دیتے ہیں ، اورپھر آپ دیکھیں کہ ان کے افعال سے استدلال بھی کرتے ہیں جیسا کہ یہاں اوراس کے علاوہ بھی کئي ایک مواقع پر کیا ہے ۔
اورجن سے متعہ کے جواز کا قول ملتاہے انہیں تحریم متعہ کی نص نہیں پہنچی اس لیے انہوں نے جواز کا قول کہا ، ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما کے اباحت معتہ کے قول پر صحابہ کرام نے تو رد بھی کیا ہے ( جن میں علی بن ابی طالب ، اورعبداللہ بن زبیر رضي اللہ تعالی عنہم ) شامل ہیں ۔
علی رضي اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما کے بارہ میں سنا کہ وہ عورتوں سے متعہ کے بارہ میں نرمی کا مظاہرہ کرتے ہیں توعلی رضي اللہ تعالی عنہ کہنے لگے :
اے ابن عباس ذرا ٹھرو بلاشبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے دن اس سے اور گھریلو گدھوں سے روک دیا تھا ۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1407 ) ۔
آپ سےگزارش ہے کہ مزید تفصیل کے لیے آپ سوال نمبر ( 2377 ) اور ( 6595 ) کے جوابات کا بھی مراجعہ کریں ۔
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات