مجھے آخر ميں علم ہوا كہ مجھے جو رقم تعليم ميں تعاون كے طور پر حاصل ہوئى تھى وہ جوا كمپنى كى جانب سے تھى، تو كيا ميرے ليے يہ مال قبول كرنا جائز ہے ؟
كيا جوا كمپنى ( لاٹرى ) سے آئى ہوئى رقم وصول كر لے؟
سوال: 20952
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اگر تو يہ رقم صرف تعاون كے طور پر ہے اور اس ميں ان كے ہاں كوئى كام كرنے كى شرط نہيں يا پھر ان كے ليے مشہورى اور ان كے اعمال كى ترقى وغيرہ نہ ہو تو پھر اس مال كو قبول كرنے ميں كوئى حرج نہيں، كيونكہ حرام كمائى والا مال جب شرعى صورت ميں منتقل ہو ( يعنى كسى دوسرے شخص كو ملے ) تو اس سے استفادہ كرنا اور ملكيت بنانا جائز ہے.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
اور كچھ دوسرے علماء كرام كا كہنا ہے كہ:
جو مال حرام كمائى سے كمايا گيا ہو؛ اس كا گناہ اور بوجھ تو صرف اس كے كمانے والے پر ہے نہ كہ جس نے مال كمانے والے سے اسے مباح اور جائز طريقہ سے حاصل كيا ہے، بخلاف اس كے كہ جو چيز بعينہ حرام ہو مثلا شراب اور غصب كردہ چيز وغيرہ.
اور يہ قول وجيہ اور قوى ہے، اس كى دليل يہ ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے گھر والوں كے ليے ايك يہودى سے غلہ خريدا.
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1954 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 3007 ).
اور ايك دوسرى حديث ميں ہے:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك يہودى عورت كى طرف سے ہديہ دى جانے والى بكرى كا گوشت كھايا اور يہودى كى دعوت قبول كى.
مسند احمد ( 3 / 210 ).
اور يہ تو معلوم ہى ہے كہ يہوديوں سود ليتے اور حرام كھاتے ہيں، اور ہو سكتا ہے اس قول كو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے اس قول سے بھى تقويت حاصل ہوتى ہے جو بريرہ رضى اللہ تعالى عنہا پر صدقہ كيے جانے والے گوشت كے بارہ ميں فرمايا تھا:
” يہ اس كے ليے تو صدقہ ہے اور ہمارے ليے اس كى جانب سے ہديہ ہے” صحيح بخارى حديث نمبر ( 1398 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2764 ).
ديكھيں: القول المفيد شرح كتاب التوحيد ( 3 / 138 – 139 ).
گزارش كى جاتى ہے كہ مزيد تفصيل كے ليے سوال نمبر ( 4820 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
ہم اس پر متنبہ كرنا چاہتے ہيں كہ كفريہ ممالك ميں مسلمان شخص كى بقا جائز نہيں، اور نہ ہى وہاں تعليم حاصل كرنا جائز ہے جہاں لڑكے اور لڑكياں مخلوط تعليم تعليم حاصل كرتى ہوں، كيونكہ اس ميں كئى ايك شرعى ممانع پائے جاتے ہيں.
مزيد تفصيل كے ليے سوال نمبر (2956 ) اور (10338 ) كے جوابات ضرور ديكھيں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات