سوال: ایک آدمی مکہ مکرمہ میں مقیم ہے، اور وہ وہاں پر کام کرتا ہے، اس نے اس سال ایک فوت شدہ آدمی کی طرف سے حج کیا ہے جو کہ مصر میں ہے۔
تو کیا حج بدل کرنے والا شخص فوت شدہ کی طرف سے حج کرتے ہوئے طوافِ وداع کریگا؟ اور کیا ایسا نہ کرنے کی وجہ سے اس پر فدیہ بھی لازم آئے گا؟ اسی طرح کیا اہل مکہ اور دیگر لوگوں کے حج میں فرق ہے؟
اگر کوئی مکہ کا رہائشی کسی غیر مکی شخص کیلئے حج کرے تو اس پر بھی طواف وداع، اور حج تمتع کی قربانی دینا لازم ہے؟
سوال: 210406
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
طواف وداع ایسے شخص پر واجب ہے جو مکہ سے حج کرنے کے بعد مکہ سے باہر جانا چاہتا ہو ، چاہے یہ شخص اہل مکہ سے ہو یا بیرون مکہ سے آیا ہو؛ اس کی دلیل ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ: “لوگ مکہ سے ہر سمت کی طرف نکل رہے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم میں سے کوئی بھی مکہ سے اس وقت تک نہ جائے جب تک اسکا آخری نسک بیت اللہ کا طواف نہ ہو، [یعنی طواف وداع کرے])” مسلم: (1327)
نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
“ہمارے فقہائے کرام کا کہنا ہے کہ: جو شخص اپنے مناسک ادا کر لے، اور مکہ میں قیام کا ارادہ ہو تو اس پر طوافِ وداع نہیں ہے، اس موقف میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے، چاہے مناسک ادا کرنے والا شخص مکہ کا رہائشی ہو یا مسافر ہو، چنانچہ اگر مکہ سے واپس اپنے علاقے میں جانے کا ارادہ کرے تو وہ طوافِ وداع کریگا” انتہی
” المجموع ” (8/234)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اگر کوئی شخص اہل مکہ میں سے ہےاور حج کرنے کے بعد سفر کرنے کا ارادہ رکھے تو وہ طوافِ وداع کریگا، کیونکہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ: “لوگ مکہ سے حج کے بعد ہر سمت کی طرف نکل رہے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم میں سے کوئی بھی مکہ سے اس وقت تک نہ جائے جب تک اسکا آخری وقت بیت اللہ کیساتھ نہ ہو) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان عام ہے، چنانچہ ہم اس مکہ کے رہائشی سے کہیں گے کہ: آپ اگر ایام حج میں سفر کرنا چاہتے ہو ، تو طواف وداع کئے بغیر سفر مت کرو” انتہی
” مجموع فتاوى ابن عثیمین” (23/339)
شیخ سلیمان الماجد حفظہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ:
“ایک شخص حرم مکہ میں رہتا ہے، تو کیا اس پر کسی آفاقی [حدود میقات سے باہر رہنے والے]شخص کی طرف سے حج بدل کرنے پر حج کی قربانی، اور طواف وداع ہوگا؟
تو انہوں نے جواب دیا:
“الحمد للہ، اما بعد: ۔۔اگر کسی آفاقی شخص نے مکہ میں رہنے والے شخص کو حج بدل کرنے کی ذمہ داری سونپی تو وہ ایسے ہی حج کریگا جیسے کہ وہ اپنے لیے کرتا ہے؛ کیونکہ اس شخص کیلئے حج کرنے کا اصل طریقہ بھی یہی ہے؛ یہ حکم اس وقت ہو گا جب حج بدل کی ذمہ داری سونپنے والا شخص میقات سے احرام باندھنے، اور حج تمتع کی قربانی کرنےکی شرط نہ لگائے؛ اگر وہ شخص ان باتوں کی شرط لگا دے تو معاہدے کی پاسداری کیلئے اسے حج ایسے ہی کرنا ہوگا، جیسے اس شخص نے ذمہ داری لگائی تھی۔
تاہم اس شخص پر طواف وداع لازم نہیں ہے؛ کیونکہ طواف وداع کا تعلق حج کے بعد مکہ چھوڑ کر سفر پر جانے سے ہے، اور یہ شخص مکہ چھوڑ کر نہیں جا رہا، البتہ اگر ذمہ داری سونپنے والا شخص طوافِ وداع کی شرط بھی لگا دے تو اس کا حکم بھی سابقہ صورت والا ہی ہوگا۔
جبکہ کچھ فقہائے کرام کا یہ کہنا کہ حج بدل کرنے والا شخص اس آدمی کے شہر سے ہی جائے جہاں حج بدل سے متعلق شخص رہتا ہے، اور اسی میقات سے گزرے جہاں سے اُس نے گزرنا تھا، تو اس بارے میں مجھے کوئی دلیل معلوم نہیں ہے۔
اور جو بات یہاں پر درست موقف کے طور پر پیش کی گئی ہے وہ متعدد اہل علم کا موقف ہے، چنانچہ ہیتمی “تحفۃ المحتاج” : (4/41) میں اس کی توجیہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: “۔۔ کیونکہ مکہ خود بھی شرعی میقات ہے۔ واللہ اعلم” انتہی
یہ فتوی شیخ سلمان الماجد کی ویب سائٹ پر نشر شدہ فتاوی سے لیا گیا ہے۔
چنانچہ اس تفصیل کے مطابق اگر کوئی مکہ کا رہائشی کسی بیرونی شخص کی طرف سے حج کرے تو اس پر طواف وداع نہیں ہے؛ کیونکہ طوافِ وداع بیت اللہ سے سفر کرنے کیساتھ منسلک ہے۔
جبکہ فدیہ کے بارے میں یہ ہے کہ: اگر آپ کی اس سے مراد یہ ہے کہ حج تمتع یا قران کی قربانی ، تو اہل مکہ پر حج تمتع یا قران کرنے پر ہدی [حج کی قربانی] نہیں ہے، اس کی دلیل اللہ تعالی کا فرمان ہے:
( فَمَن تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلاثَةِ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَةٍ إِذَا رَجَعْتُمْ تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ ذَلِكَ لِمَن لَّمْ يَكُنْ أَهْلُهُ حَاضِرِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ )
ترجمہ: جو شخص حج کے ساتھ عمرہ کرنے کا فائدہ اٹھانا چاہے وہ قربانی کرے جو اسے میسر آ سکے، اور اگر میسر نہ آئے تو تین روزے تو ایام حج میں رکھے اور سات گھر واپس پہنچ کر، یہ کل دس روزے ہو جائیں گے، یہ حکم ان لوگوں کے لیے ہے جو مسجد الحرام [مکہ] کے باشندے نہ ہوں۔ [البقرة : 196]
ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ :
“اہل علم کا اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ حج تمتع کی قربانی مسجد الحرام کے رہائشی افراد پر نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں واضح طور پر فرمایا ہے کہ: (ذَلِكَ لِمَن لَّمْ يَكُنْ أَهْلُهُ حَاضِرِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ) [ترجمہ: یہ حکم ان لوگوں کے لیے ہے جو مسجد الحرام [مکہ] کے باشندے نہ ہوں]، اور ویسے بھی مسجد الحرام کے رہائشی شخص کیلئے مکہ ہی میقات ہے، چنانچہ اسے دو میں سے کسی ایک سفر کی وجہ سے آسانی حاصل ہی نہیں ہوئی” انتہی
” المغنی ” (3/246)
اور سورہ بقرہ کی آیت میں وہ تمام افراد شامل ہیں جو اپنی طرف سے حج کریں، یا کسی اور کی طرف سے حج کریں، چنانچہ جب تک وہ مکہ مکرمہ کے رہائشی ہیں ان کا حکم یہی ہوگا۔
دوم:
اصولی طور پر مکہ کے حجاج اور دیگر حجاج میں کوئی فرق نہیں ہے، بس یہ بات ہے کہ مکہ کا حاجی طوافِ قدوم نہیں کریگا، اور اسی طرح حج تمتع یا قران کی قربانی بھی اس پر نہیں ہے، بالکل اسی طرح مکہ کے حجاج پر حج کے بعد مکہ سے باہر نہ جانے کی صورت میں طواف وداع بھی نہیں ہے، جبکہ حج کے دیگر تمام اعمال سب کیلئے مکمل طور پر یکساں ہیں۔
اس چیز کا بیان پہلے سوال نمبر: (160092) اور (41894) میں تفصیلی طور پر گزر چکا ہے، اس لئے مزید استفادہ کیلئے ان کا مطالعہ کریں۔
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب