سوال: کیا مجھے اجازت ہے کہ میں ان لوگوں کے سود کی وجہ سے بڑھنے والے قرضے کو اپنی زکاۃ سے ادا کر دوں جو سودی لین دین پر سخت نادم اور پشیمان ہیں، یا مجھے صرف اصل قرض چکانے کی اجازت ہے، سود کی وجہ سے بڑھنے والا قرض ادا کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
سودی لین دین سے تائب شخص کی قرض کی ادائیگی کیلئے امداد کا حکم
سوال: 210485
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
سودی لین دین سے مکمل توبہ کرنے والا شخص جس نے دوبارہ کبھی سودی لین دین نہ کرنے کا پختہ عزم کر لیا ہے اور اپنے ماضی پر پشیمان بھی ہے، اور نظام ایسا ہے کہ سود دیے بغیر اس کی جان نہیں چھوٹ سکتی ، وگرنہ اسے جیل یا قید خانے میں ڈال دیا جائے گا، تو ایسا قرضہ چکانے کیلئے اس کی مدد میں کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ اس سے مقروض کا فائدہ ہوگا، اور اس کا تعاون کرنے والے پر کوئی گناہ نہیں ہوگا، کیونکہ اس نے تو مقروض بیچارے کی مصیبت ختم کر دی ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
(جو شخص کسی مسلمان کی مصیبت رفع کر دے تو اللہ تعالی قیامت کے دن اس کی مشکل رفع کر دے گا) بخاری: (2442) مسلم: (2580)
ویسے بھی یہ مقروض شخص جتنی تاخیر کریگا اس کا قرض مزید بڑھتا جائے گا، اور سود ختم ہونے کا نام نہیں لے گا۔
اہل علم نے حرام ذریعے سے قرض اٹھانے والے کے بارے میں صراحت کی ہے کہ اگر وہ اللہ تعالی سے توبہ کر لے تو اس کا قرض زکاۃ کی مد سے چکایا جا سکتا ہے۔
شیخ محمد بن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“مسئلہ: جو شخص کسی حرام طریقے سے قرض لے، تو کیا ہم اسے زکاۃ دے سکتے ہیں؟
جواب: اگر وہ توبہ کر لے تو ہم زکاۃ میں سے دے سکتے ہیں، وگرنہ نہیں، کیونکہ توبہ کے بغیر اس کا قرض چکانا حرام کام پر تعاون ہے، ویسے بھی توبہ کے بغیر اس کا تعاون کیا جائے گا تو وہ دوبارہ بھی سودی قرضہ لے گا” انتہی
“الشرح الممتع” (6/235)
اسی طرح ڈاکٹر عمر سلیمان اشقر کہتے ہیں:
“جو شخص سودی قرضہ لے تو زکاۃ کی مد میں اس کا قرض نہیں چکایا جا سکتا ہے، تاہم اگر سودی لین دین سے توبہ کر لے تو اس کا تعاون ہو سکتا ہے ” انتہی
ماخوذ از: “أبحاث الندوة الخامسة لقضايا الزكاة المعاصرة” صفحہ: 210
اور اگر وہ شخص سودی لین دین سے توبہ نہ کرے بلکہ اپنے ذمہ موجودہ قرض چکا کر مزید سودی قرض لینے کا خواہش مند ہو تو ایسے شخص کو زکاۃ کی مد سے کچھ نہیں دیا جا سکتا، کیونکہ یہ اس صورت میں گناہ کے کام پر تعاون شمار ہوگا، اس لیے یہ جائز نہیں ہے۔
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب