ميں امريكہ ميں زير تعليم ہوں، چند ہفتے قبل ميرا حادثہ ہوا اللہ تعالى كى قدرت سے ميرى كمر اور گردن ميں مجھے تكليف و اذيت پہنچى ( ڈاكٹر كے كہنے مطابق پٹھوں ميں اكڑاؤ ہے، ليكن كمر كا ايكسرے نہيں ہوا تا كہ يقين ہو جائے ) حادثہ ميرى غلطى سے نہيں ہوا، اس ليے قانون كے مطابق حادثہ كا سبب بننے والے كى انشورنس كمپنى ميرے علاج معالجہ اور گاڑى كى مرمت كى ذمہ دار ہے، كمر اور گردن كى تكليف كى بنا پر ميں نے انشورنس كمپنى سے تين بار رابطہ كيا ہے تا كہ ميں ان كے خرچ پر علاج كروا سكوں ليكن انہوں نے كوئى جواب نہيں ديا، ايسا محسوس ہوتا ہے كہ وہ ٹال مٹول سے كام لے رہے ہيں اور فرار كى كوشش ميں ہيں!
كيا مجھے حق حاصل ہے كہ ميں كسى كافر وكيل كو حادثہ كا معاوضہ حاصل كرنے ميں وكيل بنا لوں، جس كى بنا پر مجھے اذيت ہوئى اور ميرى مصلحت ميں خلل واقع ہوا ہے. ؟
يہ علم ميں رہے كہ ہو سكتا ہے وكيل ان سے اتنا معاوضہ حاصل كرلے جو گاڑى كى قيمت سے بھى كئى گناہ زيادہ ہو، مجھے علم نہيں كہ علاج كا خرچ كتنا ہو گا ( امريكہ ميں علاج معالجہ بہت مہنگا ہے ).
0 / 0
6,57329/07/2005
كيا انشورنس كمپنى سے اپنى رقم كے حصول ميں كافر كو وكيل بنا لے
سوال: 21262
جواب کا متن
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اگر واقعتا كمپنى ٹال مٹول سے كام لے رہى ہے اور اپنے اوپر لازم كردہ كى ادائيگى نہيں كرتى تو آپ كے ليے وكيل كرنا جائز ہے، اور اس وكيل كا خرچ بھى كمپنى كے ذمہ ہو گا، اور اس ميں كمپنى پر كوئى ظلم نہيں، ليكن حادثہ اور آپ كے علاج معالجہ كے متعلق يہ ہے كہ آپ اس كمپنى سے اس رقم سے زيادہ وصول نہ كريں جو آپ انشورنس كى مدت ميں ادا كر چكے ہيں، كيونكہ زيادہ رقم سود شمار ہو گى، آپ كے ليے يہ رقم لينا جائز نہيں.
اور جيسا كہ مجھے علم ہے كہ آپ كے ہاں انشورنس اجبارى ہے، اور اگر اختيارى ہوتى تو آپ كا انشورنس ميں اس طرح كے معاہدے ميں شامل ہونا جائز نہيں تھا .
ماخذ:
الشیخ سعد الحمید