سوال: میں ان شاء اللہ آئندہ ہفتے عمرے کیلئے جارہا ہوں، اور اپنے گھر قاہرہ ہی سے احرام باندھنا چاہتا ہوں؛ تا کہ ہوائی جہاز میں میقات کے قریب غسل اور کپڑوں کی تبدیلی سے بچ سکوں، لیکن موسم ٹھنڈا ہے، اور مجھے ہو سکتا ہے کہ احرام کے باریک کپڑوں میں ائیر پورٹ جاتے ہوئے کوئی مرض لاحق نہ ہوجائے، ویسے بھی میرے جسم کا دفاعی نظام کیمیاوی ادویات کھانے کی وجہ کچھ کمزور ہے۔
تو کیا میں احرام کے کچھ مراحل یعنی غسل، خوشبو، احرام کی چادریں ، دو رکعت وغیرہ گھر ہی میں ادا کر لوں، جبکہ “لبیک عمرۃ” اورتلبیہ کے الفاظ بعد میں کہوں؟ اور احرام کی چادروں پر موٹا سلا ہوا لباس پہن لوں، اور ائیر پورٹ یا جہاز میں پہنچ کر سلے ہوئے کپڑے اتار لوں اور”لبیک عمرۃ” اورتلبیہ کے الفاظ کہوں، یہ سب اس لئے ہے کہ احرام کے تمام مراحل مکمل ہونے تک میں سلا ہوا کپڑا اتار چکا ہونگا۔
حج عمرہ کی نیت سے پہلے احرام کی دو چادروں پر عام لباس پہننے کا حکم
سوال: 214768
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
حج اور عمرہ کرنے والے کیلئے حج و عمرہ کی نیت [نیت کیا ہے؟ آگے اسکی وضاحت آئے گی۔ مترجم]کرنے سے پہلے پہلےغسل، خوشبو کا استعمال، اور احرام کی چادروں پر کچھ بھی پہننا ، یا کسی بھی احرام کی پابندی کا ارتکاب کرنا جائز ہے،اسکی دلیل سنن نسائی (2636) میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ: “میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ہاتھوں سے احرام کی چادریں لیتے وقت خوشبو لگاتی تھی، اور اسی طرح احرام کی چادریں کھولتے وقت بھی خوشبو لگاتی تھی”
البانی رحمہ اللہ نے “صحیح سنن نسائی” میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اس حدیث ثابت ہوا کہ احرام کی چادریں باندھتے وقت خوشبو لگانا مستحب ہے، اور حالتِ احرام کے دوران خوشبو اور رنگ کے باقی رہنے میں کوئی حرج نہیں، منع یہ ہے کہ حالت احرام میں خوشبو نہ لگائی جائے، یہی جمہور کا موقف ہے”
ماخوذ از: “فتح الباری” (3/390)
شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“میقات کے قریب قریب رہنے والوں کیلئے اپنے گھروں سے غسل ، احرام کی چادریں، اور خوشبو لگا کر آنے میں کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ وہ گاڑی پر میقات پہنچ سکتے ہیں، ان کیلئے شرعی حکم یہ ہے کہ میقات سے ہی احرام یعنی حج یا عمرہ میں داخل ہونے کی نیت کریں، احرام اصل میں اسی نیت کا نام ہے، اسی طرح نیت کے ساتھ زبان سے بھی الفاظ کہہ سکتے ہیں، چنانچہ عمرہ کرنے والا کہے گا: ” لبيك عمرةً “اور حج کرنے والا کہے گا: ” لبيك حجاً”” انتہی
ماخوذ از: ” مجموع فتاوى ابن باز ” (17/52)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ ” الشرح الممتع ” (7/69) میں کہتے ہیں:
“مؤلف کا قول: ( ونيتہ شرط ) یعنی: مناسک کی نیت شرط ہے، اسکا مطلب ہے کہ: مناسک میں داخل ہونے کی نیت شرط ہے، چنانچہ مناسک میں داخل ہونے کی نیت کرنا بہت ضروری ہے، لہذا اگر کوئی نیت کے بغیر ہی تلبیہ کہہ دے تو اسے مُحرِم[احرام والا] نہیں کہا جائے گا،اسی طرح اگر کسی نے احرام کی دو چادریں پہن لیں اور مناسک کی نیت نہیں کی تو ایسا شخص بھی محرم نہیں کہلائے گا، اس لئے کہ تلبیہ حاجی یا کوئی اور بھی کہہ سکتا ہے، اسی طرح دو چادریں محرم لوگوں کے علاوہ دیگر افراد بھی پہنتے ہیں”انتہی
مذکورہ بالا وضاحت کے بعد آپ سردی سے بچنے کیلئے سلا ہوا یا کوئی اور لباس احرام کی دو چادروں کے اوپر پہن سکتے ہیں، بلکہ آپ ہر وہ کام کرسکتے ہیں جو عام لوگ کرتے ہیں، چاہے اسکا تعلق ممنوعاتِ احرام میں سے ہی کیوں نہ ہو، چنانچہ جب تک آپ نے نیت نہیں کی چاہے غسل اور احرام کی چادریں پہن رکھی ہیں، لیکن مناسک میں داخل ہونے کی نیت نہیں کی تو آپکے لئے سب کچھ جائز ہے، اور یہ نیت جیسے کہ پہلے بھی گزر چکا ہے کہ شرط ہے، اور یہ اسی وقت واجب ہوتی ہے جب آپ میقات پر یا میقات کے برابر آجائیں، اگرچہ میقات سے پہلے احرام باندھنا جائز ہے ، لیکن بہتر نہیں ہے۔
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب