میرے کچھ رشتہ دار صوفی ہیں، ان کا شیخ جو بھی انہیں کہتا ہے وہ صرف وہی کرتے ہیں، ان کا ماننا ہے کہ ان کا شیخ اہل علم میں سے ہے، وہ کچھ ایسے کام کرتے ہیں جو شرک کے زمرے میں آتے ہیں لیکن وہ ایسے کام کرتے ہوئے خاص قسم کی تاویلیں کرتے ہیں، انہیں عربی زبان بھی نہیں آتی، البتہ ان کے پاس ان کی اپنی مادری زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ موجود ہے لیکن اسے پڑھتے نہیں ہیں۔
میں نے یہ پڑھا ہے کہ اگر کوئی شخص قرآن مجید پڑھنے کی استطاعت رکھتا ہو اور وہ جس معاشرے میں رہ رہا ہے وہاں وہ قرآن مجید تک رسائی حاصل کر سکتا ہو یا اہل علم اور علمائے کرام سے رابطہ کر کے ان سے معلومات لے سکتا ہو تو ایسی صورت میں شرک اکبر میں لاعلمی اور جہالت کو عذر نہیں بنایا جا سکتا۔
تو کیا مجھے ان لوگوں کو کافر سمجھنا چاہیے؟ یا میں انہیں کافر کہنے سے احتراز کروں؟
عذر بالجہل کے متعلق
سوال: 215338
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
ہر مسلمان کیلئے ضروری ہے کہ عقیدہ توحید مضبوط بنائے، کتاب و سنت کو سلف صالحین کے فہم کے مطابق سمجھے، بدعات اور بدعتی لوگوں سے دور رہے، صوفیوں کی طریقت اور صوفیوں سے بچے، لہذا یہ ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ ان کے منہج اور راستے سے یکسر دور رہے، مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (118693) کا جواب ملاحظہ کریں۔
دوم:
کسی کو کافر یا فاسق قرار دینے میں کوتاہی برتنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ اس سے اللہ تعالی پر اور مسلمان بندوں پر بہتان بازی لازم آتی ہے، کسی بھی مسلمان کو کافر یا فاسق قرار دینا جائز نہیں ہے، تا آنکہ شرعی دلائل کی رو سے اس کے قول یا فعل کی بنا پر اس شخص کا دائرہ اسلام سے خارج ہونا ثابت ہو جائے۔
اسی طرح کسی بھی مسلمان کو کافر یا فاسق اسی وقت قرار دیا جا سکتا ہے جب کس کو کافر یا فاسق قرار دینے کی شرائط پوری ہو جائیں اور درمیان میں کوئی مانع بھی نہ ہو۔
ان میں سے ایک شرط یہ ہے کہ: اسے اس غلطی کا علم ہو جو اس کے کافر یا فاسق ہونے کی موجب ہے
اور ایک مانع یہ ہے کہ: وہ اپنے اس کام میں تاویل کر رہا ہو، مطلب یہ ہے کہ اس کے پاس کچھ کچی باتیں ہو جنہیں وہ حقیقی دلائل سمجھ کر یہ عمل کر رہا ہو، یا اسے شرعی حجت اور دلیل صحیح انداز سے سمجھ نہ آئی ہو، تو ایسی صورت میں اسی وقت کسی کو کافر قرار دیا جا سکتا ہے جب شرعی مخالفت عمداً ہو اور جہالت رفع ہو جائے۔
تکفیر کے ضوابط جاننے کیلیے آپ سوال نمبر: (85102) کا جواب ملاحظہ فرمائیں
سوم:
کسی مسئلے سے لا علمی اور اس لاعلمی کو عذر قبول کرنے کے متعلق صائب موقف یہ ہے کہ:
اگر کسی شخص کا مسلمان ہونا مسلمہ ہو تو وہ شخص کچی باتوں اور بودے دلائل کی وجہ سے اسلام سے خارج نہیں ہو گا؛ چنانچہ ایسے شخص سے اسلام کا وصف یقینی دلائل سے ہی ہٹایا جا سکتا ہے جو کہ اس وقت ہو گا جب اس پر وحی کے مطابق حجت پوری ہو اور اس کا کوئی عذر باقی نہ رہے۔
شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اور اگر ہم کسی ایسے شخص کو کافر نہیں کہتے جو عبدالقادر جیلانی کی قبر پر موجود صنم کی پرستش کرتا ہے اور احمد بدوی وغیرہ کی قبر پر موجود صنم کی پرستش کرتا ہے ؛ کیونکہ وہ جاہل ہیں اور انہیں ان کی اس غلطی پر تنبیہ کرنے والا کوئی نہیں ہے، تو ہم محض ہماری طرف ہجرت کر کے نہ آنے والے شخص کو کافر قرار کیسے دے سکتے ہیں حالانکہ اس سے تو کوئی شرک بھی سر زد نہیں ہوا نہ ہی اس نے کوئی کفریہ کام کیا ہے اور نہ ہی اس نے تلوار اٹھائی ہے، اللہ پاک ہے یہ تو عظیم بہتان ہے۔" ختم شد از " الدرر السنية " (1/104)
اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ غیر عرب لوگ ایسے ملکوں اور معاشروں میں پروان چڑھتے ہیں جن کی اکثریت دین اسلام کے احکام اور تعلیمات سے نابلد ہوتی ہے، خصوصاً عقیدے اور وحدانیت سے متعلق امور سے وہ نابلد ہوتے ہیں، تاہم وہ کلی اور اجمالی طور پر ایمان رکھتے ہیں لیکن تفصیلات سے جاہل ہوتے ہیں۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کسی کو کافر قرار دینا "وعید" سے تعلق رکھتا ہے؛ چنانچہ اگرچہ کسی شخص کی کوئی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب پر مشتمل ہو لیکن چونکہ وہ نو مسلم ہے اس نے ابھی اسلام قبول کیا ہے ، یا کسی [علم و معرفت سے دور ]پسماندہ علاقے کا وہ رہائشی ہے تو ایسے شخص کو اس کے انکار اور تکذیب کی وجہ سے کافر قرار نہیں دیا جائے گا تاآنکہ اس پر حجت قائم ہو جائے؛ کیونکہ ایسا عین ممکن ہے کہ اس شخص نے یہ نصوص سنی ہی نہ ہوں! یا سنی تو ہوں لیکن انہیں سمجھا ہی نہ ہو! یا اس کے پاس اس سے متصادم یا معارض کوئی شبہ ہو جس کی وجہ سے وہ ان نصوص میں غلط طور پر تاویل کرتا ہو۔
میں ہمیشہ صحیح بخاری اور مسلم کی ایک حدیث اپنے ذہن میں رکھتا ہوں جس میں ایک شخص کا ذکر ہے جو کہ کہتا ہے: (جب میں مر جاؤں تو مجھے جلا کر پھر مجھے پیس کر ہوا میں اڑا دینا۔ اللہ کی قسم! اگر اللہ تعالی نے مجھے پکڑ لیا تو مجھے اتنا عذاب دے گا کہ کسی کو اس نے اس سے پہلے اتنا عذاب نہیں دیا ہو گا۔ جب وہ مر گیا تو اس کے ساتھ ایسا ہی کیا گیا، تو اللہ تعالی نے زمین کو حکم دیا اور فرمایا: اس آدمی کا جو حصہ بھی تمہارے پاس ہے اسے جمع کر دو، تو زمین نے اسے جمع کر دیا اور وہ زندہ کھڑا ہو گیا۔ تو اللہ تعالی نے پوچھا: تمہیں اس پر کس چیز نے آمادہ کیا؟ اس نے کہا: پروردگار! تیرے ڈر سے میں نے ایسا کیا تھا۔ تو اللہ تعالی نے اسے معاف فرما دیا) حدیث میں مذکور اس شخص کو اللہ تعالی کی قدرت میں شک ہوا تھا کہ اگر اسے پیس کر اڑا دیا گیا تو اللہ تعالی اسے دوبارہ زندہ نہیں کر سکے گا، بلکہ اس کا عقیدہ بن گیا کہ وہ دوبارہ زندہ ہی نہیں کیا جائے گا۔ تو یہ بات تمام مسلمانوں کے ہاں متفقہ طور پر کفر ہے؛ لیکن چونکہ وہ اللہ تعالی کی قدرت سے نابلد تھا ، اور ساتھ میں اللہ کے عذاب سے ڈرتے ہوئے ایمان بھی رکھتا تھا تو اللہ تعالی نے اسے اسی خوف کی بنا پر بخش دیا۔
تو اب جو شخص اجتہاد کی اہلیت رکھنے والا ہو اور تاویل کر رہا ہوں ساتھ میں اس کی کوشش یہ بھی ہو کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر کار بند بھی رہے تو ایسا شخص حدیث میں مذکور شخص سے زیادہ مغفرت کا حق دار ہے۔" ختم شد
اسی طرح ایک جگہ پر رقمطراز ہیں:
" بہت سے لوگ ایسی جگہوں یا وقت میں نشو و نما پاتے ہیں جہاں علم نبوت میں سے بہت سی چیزیں مٹ چکی ہوتی ہیں، حتی کہ وہاں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی کی جانب سے ملنے والی کتاب و حکمت کی تبلیغ کرنے والا کوئی بھی نہیں ہوتا جس کی وجہ سے ایسی بہت سی باتیں وہاں کے لوگ نہیں جانتے جنہیں اللہ تعالی نے اپنے رسول کو دے کر بھیجا ہوتا ہے اور نہ ہی وہاں پر اس کی تبلیغ کرنے والا کوئی ہوتا ہے، تو ایسے ماحول کا آدمی کافر نہیں ہو گا؛ اسی لیے ائمہ کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر کوئی شخص کسی اہل علم سے دور دراز کے علاقے میں پروان چڑھے اور وہ نو مسلم بھی ہو تو اس حالت میں کسی مشہور و معروف متواتر عمل کا انکار کر دے تو اس پر کفر کا حکم نہیں لگایا جائے گا یہاں تک کہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے آشنا نہ کر دیا جائے" ختم شد
"مجموع الفتاوى" (11/407)
اگر وہ قرآن مجید کے ترجمہ کو سمجھ سکتے ہیں تو یہ بات کافی نہیں ہے، بلکہ اگر وہ اپنی زبان میں ترجمہ پڑھ بھی سکتے ہیں تب بھی یہ کافی نہیں ہے؛ کیونکہ کتنے ہی عربی زبان جاننے اور سمجھنے والے ہیں بلکہ عربی زبان کے اسالیب سے بھی واقف ہیں لیکن پھر بھی انہیں کتاب و سنت کی بعض نصوص سمجھ نہیں آتیں کہ جس سے ان کی غلطی واضح ہو یا ان کے موقف کا غلط ہونا ثابت ہو، یا انہیں یہ علم نہیں ہوتا کہ یہ چیز شرک ہے یا نہیں!؟
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"غزالی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب " التفرقة بين الإيمان والزندقة " میں کہا ہے کہ: کسی کو کافر قرار دینے سے حتی الامکان پرہیز کرنا چاہیے، کیونکہ نماز پڑھنے والے اور عقیدہ توحید کا اقرار کرنے والے لوگوں کا قتل جائز سمجھنا بہت ہی سنگین غلطی ہے اور [اس کی سنگینی کا اندازہ اس سے لگائیں کہ] ایک ہزار [جنگجو]کافروں کو غلطی سے جینے کا موقع فراہم کرنا اتنا بڑا گناہ نہیں ہے جتنا ایک مسلمان کا خون بہانے کا ہے" ختم شد
"فتح الباری" (12/300)
یہاں سائل کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنے ان عزیز و اقارب اور رشتہ داروں کو صحیح بات پہنچانے کیلیے خوب کوشش کرے، انہیں عقیدہ توحید اور سنت کی تبلیغ کرے، ان کی طرف سے ملنے والی تکالیف پر صبر کرے، اگر وہ رو گردانی کرتے ہیں یا سختی سے پیش آتے ہیں تو اسے خندہ پیشانی سے برداشت کرے؛ کیونکہ دعوت کے میدان میں صبر کے وقت انسان عظیم ترین مقام پر فائز ہوتا ہے؛ فرمانِ باری تعالی ہے:
( وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِمَّنْ دَعَا إِلَى اللَّهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ * وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ * وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ * وَإِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ )
ترجمہ: اللہ کی جانب دعوت دینے والے سے زیادہ اچھی بات کس کی ہو سکتی ہے جو نیک عمل خود بھی کرتا ہے اور کہتا ہے میں اللہ کے فرمانبرداروں میں سے ہوں ٭ نیکی اور برائی دونوں برابر نہیں ہو سکتے، برائی کو بہترین اسلوب سے مٹائیں تو جس کی آپ کے ساتھ عداوت ہے وہ بھی جگری دوست بن جائے گا ٭ ان لوگوں کو یہ خوبی حاصل ہوتی ہے جو صبر کرتے ہیں اور یہ مقام ان لوگوں کو حاصل ہوتا ہے جو بڑے نصیب والے ہیں ٭ اور اگر شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ آئے تو اللہ کی پناہ طلب کرو یقیناً وہ بہت ہی سننے والا جاننے والا ہے [فصلت: 33-36]
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات