طلاق کے بعد اگر بیوی کسی دوسرے ملک یا شہر جا کررہائش پذیر ہونا چاہے تو خاوند کے لیے اپنے بچےسے ملنا مشکل ہوگا اس لیے کہ وہاں جانے کےلیے اسے ملازمت سے چھٹی ہوگی اورہوائی جہاز کے ذریعہ سفر کرنا پڑے گا توکیا خاوند کوحق ہے کہ وہ اپنے بچے کی پرورش کرسکے ؟
اورکیا غیراسلامی ممالک میں بچے کی کفالت کے لیے غیراسلامی عدالتوں سے فیصلہ کروایا جاسکتا ہے اس لیے کہ خاوند اوربیوی دونوں یہ کہتے ہیں کہ پرورش کا حق اس کا ہے ؟
اورکیا جب عورت شادی کرلے توکیا اس سے پرورش کا حق خود بخود ہی ختم ہوجاۓ گا ؟
اگر عورت اپنے سابقہ خاوند کے ملک کوچھوڑنا چاہے توبچے کی پرورش کا حق کس کا ہے
سوال: 21612
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
پرورش کے متعلق گزارش ہے کہ جب خاوند اوربیوی کا ملک علیحدہ علیحدہ ہواوربچہ بھی پرورش کی عمر ( یعنی سات برس کی عمر سے چھوٹا ) میں ہو تو صحیح اوراصل یہی ہے کہ پرورش کا حق ماں کوہے ۔
اس کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مندرجہ ذیل فرمان ہے :
( جب تک نکاح نہ کرلے تواس کی زيادہ حقدار ہے ) سنن ابوداود حدیث نمبر ( 1938 ) ۔
یہ تو اصل کے اعتبار سے ہوا ، لیکن یہاں ایک اوراصل اورقاعدہ ہے کہ پرورش بچے کی مصلحت پر مبنی ہے :
تواگر ماں یا پھر باپ کے ساتھ سفر میں بچے کوضرر اورتکلیف ہو توبچے کی پرورش کا مسئلہ والد کے حق میں ہوگا کہ بچے کوسفر کی وجہ سے تکلیف نہ ہو ، اوراگر ماں کے ساتھ ایک ملک سے دوسرے ملک سفر میں بچے کوکوئی ضرر اورتکلیف نہیں ہوتی تواصلا پرورش کا حق ماں کوہی حاصل رہے گا ۔
اورغیراسلامی ممالک میں پرورش وغیرہ کے مسائل میں غیراسلامی عدالتوں کا رخ کرنا جائز نہيں ، کیونکہ یہ طاغوت سے فیصلہ کروانا ہے جو کہ جائز نہیں اوراللہ تعالی کا فرمان تو کچھ اس طرح ہے :
اورجوبھی اللہ تعالی کے نازل کردہ ( دین ) کے مطابق فیصلہ نہيں کرتا وہ کافر ہيں المائدۃ ( 44 ) ۔
اوراللہ تعالی نے دوسرے مقام پر کچھ اس طرح فرمایا :
آپ ان کے درمیان اللہ تعالی کے نازل کردہ ( دین ) حق کے مطابق فیصلہ کریں اوران کی خواہشات کے پیچھے نہ چلیں ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لیے شریعت اورطریقہ بنایا ہے المائدۃ ( 48 ) ۔
لھذا خاوند اوربیوی پر ضروری ہے کہ وہ مراکز اسلامیہ میں جائيں اوراہل علم سے پوچھیں اوران سے فیصلہ کروائيں ۔
اورجب عورت شادی کرلے تواس سے پرورش کا حق ختم ہوجاتا ہے جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے اورحدیث بھی گزر چکی ہے ، آپ مزید تفصیل کے لیے سوال نمبر (9463 ) دیکھیں ۔
واللہ اعلم .
ماخذ:
الشیخ ڈاکٹر خالد بن علی المشیقح
متعلقہ جوابات