کیا یہ بات واقعی صحیح ہے کہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے جشن ولادت رسول منانا جائز قرار دیا ہے؟ کیونکہ یہاں الجزائر میں ہمارے ہاں کچھ مشائخ عید میلاد النبی منانے کے لیے عسقلانی کے اجازت نامے کو دلیل بناتے ہیں۔
کیا ابن حجر عسقلانی نے عید میلاد النبی منانے کو جائز قرار دیا ہے؟
سوال: 216480
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت پر جشن منانا بدعات میں شامل ہے، اسے باقاعدہ طور پر منانے کا اہتمام فاطمی اور عبیدی حکمرانوں نے کیا تھا اور در حقیقت یہ گمراہ کن اور دین سے دور فرقوں سے تعلق رکھتے تھے، جبکہ دوسری جانب ابتدائی تین افضل صدیوں میں کسی سے بھی یہ بات منقول نہیں ہے کہ انہوں نے اس عمل کو اچھا سمجھا ہو یا اس کی اجازت دی ہو۔
اس بارے میں مزید معلومات کیلیے سوال نمبر: (70317) اور سوال نمبر: (128530) کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔
دوم:
شرعی احکام کے لیے بنیادی ماخذ قرآن و سنت ہیں، جبکہ علمائے کرام انبیائے عظام کے وارث ہیں، علمائے کرام نے ہی علم کی نشر و اشاعت کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے، اللہ تعالی نے بھی اہل علم کو دین کی سمجھ عطا فرمائی ہے تاہم یہ سمجھ ہر ایک کو مخصوص مقدار میں اللہ تعالی نے دی ہے، چنانچہ یہ لازمی نہیں ہے کہ ہر عالم کی ہر بات لازمی طور پر درست ہو گی، بلکہ علمائے کرام مجتہد ہوتے ہیں اور مجتہد شخص اگر صحیح نتیجے پر پہنچ جائے تو اس کیلیے دوہرا اجر ہے ایک اجتہاد کا اور دوسرا صحیح نتیجے کا اور اگر اجتہاد میں غلطی لگے تو اسے اجتہاد کرنے کا ثواب ملے گا جبکہ غلط نتیجہ حاصل ہونے پر گناہ نہیں ملے گا اس کی یہ غلطی معاف ہو گی۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ اہل علم مجتہد افراد کے لیے شرعی قاعدہ ہے کہ: جو اہل علم تلاش حق کیلیے کوشش کرے اور دلائل پرکھے تو حق بات تک پہنچنے پر اسے دہرا اجر ملے گا، جبکہ حق بات چوک جانے پر صرف اجتہاد کا اجر ملے گا " ختم شد
"مجموع فتاوى ابن باز" (6/ 89)
سوم:
سیوطی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"شیخ الاسلام حافظ العصر ابو الفضل ابن حجر سے عید میلاد منانے کے متعلق پوچھا گیا، تو انہوں نے یہ فرمایا:
"عید میلاد منانا بنیادی طور پر بدعت ہے، ابتدائی تین فضیلت والی صدیوں میں سلف صالحین میں سے کسی سے بھی میلاد منانا ثابت نہیں ہے۔ تاہم اس کے باوجود میلاد میں اچھائی اور برائی دونوں چیزیں شامل ہیں؛ چنانچہ اگر کوئی شخص میلاد مناتے ہوئے اچھائیاں اپنائے اور برائیوں سے رکے تو یہ بدعت حسنہ ہو گی، بصورتِ دیگر نہیں۔"
انہوں نے مزید کہا کہ: "مجھے اس کی ایک ثابت شدہ بالواسطہ دلیل ملتی ہے وہ یہ ہے کہ صحیحین میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو یہودیوں کو عاشورا کے دن روزہ رکھتے ہوئے پایا، تو آپ نے ان سے اس کی بابت پوچھا، جس پر انہوں نے جواب دیا کہ اس دن میں اللہ تعالی نے فرعون کو غرق آب فرما کر موسی کو نجات دی تھی، تو ہم اس دن اللہ کا شکر ادا کرنے کیلیے روزہ رکھتے ہیں۔
تو اس سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ جس معین دن میں اللہ تعالی نے کوئی نعمت عطا کی ہو تو اس دن اللہ کا شکر ادا کیا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالی نے جس دن کوئی نعمت عطا فرمائی یا کسی تکلیف کو رفع فرمایا تو ہر سال اس دن میں اللہ کا شکر ادا کرے۔
اور اللہ تعالی کا شکر کسی بھی عبادت کی صورت میں ادا کیا جا سکتا ہے جیسے کہ نفل نماز، روزہ، صدقہ اور تلاوت وغیرہ ، تو اب نبی رحمت کی ولادت سے بڑھ کر اس دن میں کونسی نعمت ہمارے لیے ہو سکتی ہے!؟
اس لیے مناسب یہی ہے کہ میلاد منانے کیلیے خاص ولادت کا دن ہی اختیار کیا جائے تا کہ اس کی یوم عاشورا میں قصہ موسی کے ساتھ مطابقت پیدا ہو جائے۔ اور جو لوگ اس بات کا خیال نہیں کرتے وہ پورے مہینے میں کسی بھی دن میلاد منا رہے ہوتے ہیں، بلکہ کچھ نے تو پورے سال میں کسی بھی دن منانے کی اجازت بھی دے رکھی ہے، حالانکہ یہ بات محل نظر ہے۔
یہ تو تھا اس عمل کی دلیل سے متعلق۔
اب دیکھتے ہیں کہ اس دن میں کیا کچھ کیا جائے: تو اس کے لیے مناسب یہی ہے کہ صرف ایسی سرگرمیاں ہی کی جائیں جن سے اللہ کا شکر ادا ہو، جیسے کہ پہلے گزر چکا ہے کہ قرآن پاک کی تلاوت کی جائے، کھانا کھلایا جائے اور صدقہ خیرات کیا جائے، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں نعت خوانی اور دلوں میں دنیا سے بے رغبتی پیدا کرنے والے شعری کلام کو پڑھا جائے جن سے نیکی کرنے اور آخرت کی تیاری کرنے کیلیے انسان تیار ہو۔
لیکن اس کام کے لبادے میں جو سماع اور لہو وغیرہ عمل میں لایا جاتا ہے : تو ان کے بارے میں یہ کہنا چاہیے کہ : جو چیز مباح ہے کہ ان کی وجہ سے دلوں میں مسرت پیدا ہو تو پھر اس کی میلاد میں اجازت ہونی چاہیے اس میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن جو چیز حرام یا مکروہ ہو تو یہ منع ہوگا، اسی طرح وہ چیزیں بھی منع ہوں گی جو خلاف اولی ہیں" ختم شد
"الحاوی للفتاوی" (1/ 229)
تو اس کے بارے میں عرض ہے کہ:
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ سے یہاں پر تین حصوں میں گفتگو منقول ہے:
اول: سب سے پہلے اس میں صراحت ہے کہ میلاد منانا سلف صالحین کا کام نہیں ہے، لہذا یہ بدعت ہے، چنانچہ ابن حجر کی گفتگو میں سب سے پہلے بیان کردہ اس جملے کو مد نظر رکھنا ضروری ہے اسے بے معنی سمجھنا کسی صورت میں درست نہیں ہے۔
دوم: انہوں نے کہا ہے کہ: " اب دیکھتے ہیں کہ اس دن میں کیا کچھ کیا جائے: تو اس کے لیے مناسب یہی ہے کہ صرف ایسی سرگرمیاں ہی کی جائیں جن سے اللہ کا شکر ادا ہو، جیسے کہ پہلے گزر چکا ہے کہ قرآن پاک کی تلاوت کی جائے، کھانا کھلایا جائے اور صدقہ خیرات کیا جائے، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں نعت خوانی اور دلوں میں دنیا سے بے رغبتی پیدا کرنے والے شعری کلام کو پڑھا جائے جن سے نیکی کرنے اور آخرت کی تیاری کرنے کیلیے انسان تیار ہو۔"
لوگوں کی جشن عید میلاد النبی اور دیگر خود ساختہ تہواروں میں حالت اس مقصد سے بالکل متصادم ہوتی ہے جو کہ حافظ ابن حجر کے اس فتوے کی روح سے متصادم ہے، چنانچہ لوگوں کے احوال سے مطلع شخص یہ جانتا ہے کہ جتنے بھی لوگ میلاد مناتے ہیں ان میں سے اکثریت میلاد مناتے ہوئے بدعات اور گناہوں کا ارتکاب کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، بلکہ ایسی محفلوں میں بے حیائی اور شریعت کی دھجیاں ایسے اڑائی جاتی ہیں کہ اللہ حافظ ہے!!
حالانکہ بخاری: (869) اور مسلم: (445) میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ : (اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کی پیدا کردہ [حرکتیں] دیکھ لیں تو انہیں مسجد میں جانے سے منع کر دیتے جیسے بنی اسرائیل کی عورتوں کو منع کر دیا گیا تھا)!!
چنانچہ اگر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ایک ایسے کام کے متعلق اپنا تبصرہ فرما رہی ہیں کہ جو متفقہ طور پر جائز ہے؛ صرف اس لیے کہ لوگوں نے اس کام کا مقصد ہی بدل دیا ہے ؛ تو جو عمل سرے سے ہی بدعت ہو پھر اس پر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تبدیلیوں ، بدعات اور گناہوں کا قبضہ ہو جائے تو اس متعلق ایک دانش مند کیا فیصلہ کرے گا؟!
یہاں پر اہل خرد کو چاہیے کہ غور وفکر کریں اور امام شاطبی رحمہ اللہ کی اس بات پر تدبر کریں:
"اگر کوئی مکلف شخص ہر مسئلے میں فقہی مذاہب کی رخصتیں تلاش کرنے لگ جائے اور اپنی پسند کے موقف کو ہی اپنائے تو وہ تقوی کی مالا اپنے گلے سے اتار دیتا ہے، وہ ہوس پرستی میں بڑھتا ہی چلا جاتا ہے، وہ شخص محکم شرعی احکام کو توڑ دیتا ہے اور جس بات کو ترجیح دی ہے اسے مؤخر کر دیتا ہے" ختم شد
دیکھیں: "الموافقات" (3/ 123)
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات