ہم ہر ماہ كے آخرى اتوار تقريبا تيس يا اس سے زيادہ عورتيں اكٹھى ہو كر قرآن خوانى كرتى ہيں اور ہر ايك تقريبا ايك سپارہ پڑھ كر ايك يا ڈيڑھ گھنٹہ ميں مكمل قرآن ختم ہو جاتا ہے، ہميں كہا جاتا ہے كہ اس طرح ہر ايك كے ليے ـ ان شاء اللہ ـ پورا قرآن شمار ہو گا، كيا يہ كلام صحيح ہے ؟
اس كے بعد ہم دعا كرتى ہيں كہ اللہ تعالى اس قرآن خوانى كا ثواب زندہ اور فوت شدگان مومنوں كو پہنچے تو كيا يہ ثواب ان كو پہنچتا ہے ؟
وہ اس كى دليل نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا درج ذيل فرمان بناتے ہيں:
" جب انسان فوت ہو جاتا ہے تو اس كے عمل منقطع ہو جاتے ہيں ليكن تين قسم كے نہيں، صدقہ جاريہ يا فائدہ مند علم جس سے لوگ فائدہ اٹھائيں يا نيك و صالح اولاد جو اس كے دعا كرے "
اسى طرح وہ عيد ميلاد النبى مناتے ہيں جو صبح دس بجے شروع ہو كر شام تين بجے تك رہتى ہے، اس ميں ابتدا استغفار اور حمد و تسبيح اور تكبير اور نبى صلى اللہ عليہ وسلم پر درود و سلام سے ہوتى ہے اور پھر قرآن پڑھتے ہيں، اور بعض عورتيں اس دن روزہ بھى ركھتى ہيں تو كيا اس دن كو يہ سارى عبادات كے ليے مخصوص كرنا بدعت شمار ہوتا ہے ؟
اسى طرح ہمارے ہاں ايك بہت لمبى دعا ہے جو سحرى كے وقت كى جاتى ہے جو اس كى استطاعت ركھتا ہو اس دعا كا نام " دعاء رابطہ " ہے يہ دعا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر دورد و سلام اور آپ كى جماعت پر رحمت اور سارے انبياء اور امہات المؤمنين اور صحابيات پر سلام اور خلفاء راشدين اور تابعين عظام اور اولياء و صالحين پر رحمت كى دعا كے ساتھ ہر ايك اپنا نام ذكر كرتا ہے.
اور كيا يہ صحيح ہے كہ ان سب ناموں كا ذكر كرنے سے وہ ہمارا تعارف كر ليتے ہيں اور جنت ميں ہميں پكارينگے، كيا يہ دعاء بدعت ہے ؟
ميں تو يہى سمجھتى ہوں كہ يہ بدعت ہے، ليكن اكثر عورتيں ميرى مخالفت كرتى ہيں، اگر ميں غلطى پر ہوں تو كيا اللہ مجھے سزا ديگا، اور ميں حق پر ہوں تو مجھے بتائيں كہ ميں انہيں كيسے مطمئن كر سكتى ہوں ؟
ميں اس مسئلہ سے بہت پريشان ہوں جب بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى درج ذيل حديث ذہن ميں آتى ہے تو ميرى پريشانى اور غم اور بھى زيادہ ہو جاتا ہے:
نبى كريم صلى اللہ عليہ و سلم كا فرمان ہے:
" ہر نيا كام بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہى ہے، اور ہر گمراہى آگ ميں ہے "
اجتماعى قرآن خوانى اور فوت شدگان كو ايصال ثواب اور ميلاد النبى كا حكم
سوال: 70317
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
قرآن مجيد كى تلاوت كرنے كے كتاب و سنت ميں بہت زيادہ فضائل بيان ہوئے ہيں، قرآن كريم كى تلاوت اور پڑھنے كے جمع ہونے كا ثواب اس وقت حاصل ہوتا ہے جب اس ميں طريقہ بھى شرعى اختيار كيا جائے، كہ جمع ہونے والے لوگ اكٹھے ہوں اور قرآن مجيد كى تفسير اور اس كے مسائل سمجھيں اور ايك دوسرے كو بيان كريں، اور تلاوت قرآن كى تعليم حاصل كريں.
اور شرعى اجتماع ميں يہ بھى شامل ہے كہ جمع ہونے والوں ميں سے ايك شخص قرآن مجيد كى تلاوت كرے اور باقى افراد اسے سمجھنے اور غور و فكر كى خاطر سنيں، دونوں طرح ہى سنت نبويہ سے ثابت ہے.
اس كى مزيد تفصيل معلوم كرنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 22722 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
اور ہر ايك شخص نے ايك سپارہ پڑھا ہو تو اسے ہر شخص كے ليے قرآن مجيد مكمل شمار كرنا صحيح نہيں؛ كيونكہ جمع ہونے والے ہر شخص نے پورا قرآن تو ختم نہيں كيا بلكہ سنا بھى نہيں، بلكہ سب نے تھوڑا تھوڑا تلاوت كيا ہے تو اسے اتنا ہى ثواب ملے گا جتنا اس نے تلاوت كيا ہے.
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كہتے ہيں:
" قرآن خوانى كے ليے جمع ہونے والوں ميں سے ہر ايك كو ايك ايك سپارہ دينا تا كہ وہ اس كى تلاوت كرے اسے مكمل قرآن ختم كرنا ہر ايك كے ليے پورا قرآن شمار نہيں كيا جائيگا " انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 2 / 480 ).
دوم:
قرآن مجيد كى تلاوت كے بعد اجتماعى دعا مشروع نہيں اور نہ ہى قرآن خوانى كا ايصال ثواب فوت شدگان كے ليے جائز ہے، اور نہ ہى زندوں كے ليے، ہمارے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اور نہ ہى صحابہ كرام نے ايسا عمل كيا.
شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
كيا ميں اپنے والدين كے ليے قرآن مجيد ختم كر سكتا ہوں كيونكہ وہ پڑھے لكھے نہيں ؟
اور كيا ميرے ليے كسى پڑھے ہوئے شخص كى جانب سے قرآن مجيد ختم كرنا جائز ہے كيونكہ ميں اسے قرآن كا ثواب ہديہ كرنا چاہتا ہوں، اور كيا ايك سے زائد اشخاص كے ليے قرآن ختم كر سكتا ہوں ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" نہ تو كتاب اللہ ميں اور نہ ہى سنت مطہرہ ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اور نہ ہى صحابہ كرام سے كوئى ايسى دليل ملتى ہے جو والدين يا كسى اور كو قرآن مجيد كى تلاوت كا ثواب ہديہ كرنے كى مشروعيت پر دلالت كرتى ہو.
بلكہ قرآن مجيد كى تلاوت سے خود فائدہ اٹھانے اور استفادہ كرنا مشروع ہے، اور اس كے معانى پر غور و فكر اور تدبر كرنے اور اس پر عمل كرنا مشروع كيا گيا ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
يہ بابركت كتاب ہے جسے ہم نے آپ كى طرف اس ليے نازل فرمايا ہے كہ لوگ اس كى آيتوں پر غور فكر كريں اور عقلمند اس سے نصيحت حاصل كريں ص ( 29 ).
اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى كچھ اس طرح ہے:
يقينا يہ قرآن وہ راستہ دكھاتا ہے جو بہت ہى سيدھا ہے اسراء ( 9 ).
اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى اس طرح ہے:
كہہ ديجئے يہ تو مومنوں كے ليے ہدايت و شفا كا باعث ہے فصلت ( 44 ).
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" روز قيامت قرآن مجيد اس پر عمل كرنے والوں كو لايا جائيگا سورۃ البقرۃ اور سورۃ آل عمران آگے ہونگى گويا كہ وہ دو بادل ہيں يا پرندوں كے دو جھنڈ ہوں وہ ان كا دفاع كر رہى ہونگى "
مقصد يہ ہے كہ قرآن مجيد اس ليے نازل ہوا ہے كہ اس پر عمل كيا جائے اور اس كى تلاوت كثرت سے ہو نہ كہ اس ليے نازل ہوا ہے كہ اسے فوت شدگان كے ليے ہديہ اور ايصال ثواب كے ليے پڑھا جائے.
ميرے علم كے مطابق والدين وغيرہ كے ايصال ثواب كے ليے قرآن خوانى كرنے كى كوئى ايسى دليل نہيں ملتى جس پر اعتماد كيا جا سكے، اور پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان تو يہ ہے:
" جس كسى نے بھى كوئى ايسا عمل كيا جس پر ہمارا حكم نہيں تو وہ عمل مردود ہے "
بعض اہل علم اسے جائز قرار ديتے ہيں ان كا كہنا ہے كہ قرآن مجيد يا دوسرے اعمال صالحہ كا ثواب ہديہ كرنے ميں كوئى مانع نہيں، انہوں نے اسے صدقہ اور فوت شدگان كے ليے دعا پر قياس كيا ہے، ليكن يہ صحيح نہيں بلكہ مذكورہ بالا اور اس موضوع كى دوسرى احاديث كى بنا پر پہلا قول ہى صحيح ہے.
اور اگر تلاوت كا اجروثواب ہديہ كرنا مشروع اور جائز ہوتا تو سلف صالحين رحمہم اللہ بھى ايسا ضرور كرتے، اور پھر عبادت ميں تو قياس كرنا جائز ہى نہيں؛ كيونكہ عبادات توقيفى ہيں ان ميں كمى و زيادتى نہيں كى جا سكتى اور عبادت كا ثبوت يا تو كلام اللہ سے يا پھر سنت رسول اللہ سے ہو گا اس كے علاوہ نہيں، اس كى دليل وہ سابقہ حديث ہے "
ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن باز ( 8 / 360 – 361 ).
اور ان كا درج ذيل حديث سے استدلال كرنا صحيح نہيں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جب ابن آدم مر جاتا ہے تو اس كے عمل منقطع ہو جاتے ہيں ليكن تين قسم كے ايسے ہيں جو جارى رہتے ہيں …. "
بلكہ جب اس حديث پر غور كيا جائے تو يہ فوت شدگان كے ليے قرآن خوانى وغيرہ كے ايصال ثواب كى عدم مشروعيت پر دلالت كرتى ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا نے فرمايا ہے:
" نيك و صالح اولاد جو اس كے ليے دعا كرتى ہے "
آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ نہيں فرمايا كہ " وہ اس كے ليے قرآن خوانى كرتى ہے ".
سوم:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا نام آنے پر صلى اللہ عليہ وسلم لكھنے كى بجائے مختصر طور پر صرف ص يا صلعم نہيں لكھنا چاہيے، جو اتنا لمبا سوال لكھ سكتا ہے اس كے ليے صلى اللہ عليہ وسلم لكھنا كوئى مشكل تو نہ تھا.
اس كے متعلق تفصيلى بيان سوال نمبر ( 47976 ) كے جواب ميں ہو چكا ہے آپ اس كا مطالعہ ضرور كريں.
چہارم:
عيد ميلاد ا لنبى صلى اللہ عليہ وسلم منانا بدعت ہے، اور اس ميں معين عبادات مثلا سبحان اللہ والحمد للہ اور اعتكاف اور قرآن مجيد كى تلاوت اور روزے وغيرہ كى تخصيص كرنا بدعت ہے ايسا كرنے والے كو كوئى اجروثواب حاصل نہيں ہو گا كيونكہ يہ مردود ہے.
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس كسى نے بھى ہمارے اس دين ميں كوئى نيا كام ايجاد كيا تو وہ مردود ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1718 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2550 ).
اور مسلم شريف كى ايك روايت ميں يہ الفاظ ہيں:
" جس كسى نے بھى كوئى ايسا عمل كيا جس پر ہمارا حكم نہيں تو وہ مردود ہے "
فاكہانى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" ميرے علم كے مطابق كتاب و سنت ميں اس ميلاد كى كوئى دليل نہيں، اور نہ ہى علماء امت ميں سے كسى معتبر اور قدوہ دين عالم دين سے اس پر عمل كرنا ثابت ہے جو سلف صالحين كے آثار پر عمل كرنے والے ہوں، بلكہ يہ بدعت ہے جسے باطل اور شہوانى قسم كے افراد جو كھانے پينے كو مشغلہ بنائے ہوئے تھے كى ايجاد د ہے "
ديكھيں: المورد فى عمل المولد ( بحوالہ كتاب: رسائل فى حكم الاحتفال بالمولد النبوي ).
اور شيخ عبد العزيز بن باز ر حمہ اللہ سے بھى اس كے متعلق كئى بار سوال كيا گيا جو ہم ذيل ميں بمع جواب پيش كر رہے ہيں:
سوال: ؟
يہ سوال بار بار آتا رہا ہے کہ نبي صلي اللہ عليہ وسلم كى پيدائش کے دن محفل ميلاد منعقد کرنا، آپ صلى اللہ عليہ وسلم كى ان محفلوں ميں حاضري کا اعتقاد رکھ کر از روئے تعظيم وتکريم آپ کے خيرمقدم ميں کھڑے ہوجانا، آپ صلى اللہ عليہ وسلم پر درود وسلام بھيجنا اورميلادوں ميں کئے جانے والے اس طرح کے ديگر اعمال كى شرعي حيثيت کيا ہے؟
جواب:
رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم يا كسى اور كى پيدائش پر محفل ميلاد منعقد کرنا جائز نہيں ہے، بلکہ يہ اسلام ميں ايک نو ايجاد بدعت ہے، کيونکہ پہلى تين افضل صديوں ميں رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم آپ کے خلفاء راشدين، ديگر صحابہ کرام اور اخلاص کے ساتھ ان كى پيروي کرنے والے تابعين نے آپ صلى اللہ عليہ وسلم كى يوم پيدائش کا جشن نہيں منايا جبکہ وہ بعد ميں آنے والے لوگوں کے مقابلہ ميں سنت کا زيادہ علم ، رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم سے کامل محبت رکھنے والے اورطريقہ نبوي كى مکمل پيروي کرنے والےتھے.
نبي صلى اللہ عليہ وسلم سے ايک حديث ميں ثابت ہے کہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" من أحدث في أمرناهذا ماليس منه فهورد "
جس نےہمارے اس دين ميں کوئي نيا کام نکالا جو( دراصل ) اس ميں سے نہيں ہے وہ ناقابل قبول ہے.
اور آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے ايک دوسري حديث ميں فرمايا:
" عليکم سنتي وسنة الخفاء الراشدين المهديين من بعدي تمسکوا بهاوعضوا عليها بالنواجذ وإياکم ومحدثات الأمور فإن کل محدثة بدعة وکل بدعة ضلالة "
تم ميري سنت اور ميرے بعد ہدايت يافتہ خلفاء راشدين كى سنت کو لازم پکڑو اسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لو اور دين ميں نئي نئي باتوں سے بچو کيونکہ ہر نئي چيز بدعت ہے اور بدعت گمراہي ہے.
ان دونوں حديثوں ميں بدعات ايجاد کرنے اور ان پر عمل کرنے سے سختي کے ساتھ منع کيا گيا ہے.
اللہ تعالى نے اپني کتاب مبين قرآن کريم ميں فرمايا:
وماآتاکم الرسول فخذوه ومانهاکم عنه فانتهوا الحشر ( 59 / 7 )
اور تمہيں جوکچھ رسول ديں لے لو اور جس سے روک ديں رک جاؤ.
نيز اللہ عزوجل نے فرمايا:
فليحذرالذين يخالفون عن أمره أن تصيبهم فتنة أو يصيبهم عذاب أليم النور ( 24 / 63 ).
سنو! جولوگ حکم رسول كى مخالفت کرتے ہيں انہيں ڈرتے رہنا چاہئے کہ کہيں ان پر کوئي زبردست آفت نہ آپڑے يا انہيں دردناک عذاب نہ پہنچے.
نيز اللہ سبحانہ وتعالي نے فرمايا:
لقد کان لکم في رسول الله أسوة حسنة لمن کان يرجوا الله واليوم الآخروذکر الله کثيرا الاحزاب (23/ 21 ).
يقينا تمہارے لئے رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم ميں عمدہ نمونہ ( موجود ) ہے، ہر اس شخص کے لئے جو اللہ تعالى كى اور قيامت کے دن كى توقع رکھتا ہو، اور بکثرت اللہ تعالى کو ياد کرتا ہو.
نيز اللہ تعالى نے فرمايا:
والسابقون الأولون من المهاجرين والأنصار والذين اتبعوهم بإحسان رضي الله عنهم ورضوا عنه وأعد لهم جنات تجري تحتها الأنهار خالدين فيهاأبدا ذلك الفوزالعظيم التوبۃ ( 9 / 100 ) .
اور جومہاجرين وانصار سابق اورمقدم ہيں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پيرو ہيں اللہ ان سب سے راضي ہوا اور وہ سب اس سے راضي ہوئے، اور اللہ نے ان کے لئے ايسے باغ مہيا کر رکھے ہيں جن کے نيچے نہريں جاري ہونگي جن ميں وہ ہميشہ رہيں گے، اور يہ بڑي کاميابي ہے.
نيزاللہ تعالى نے فرمايا:
اليوم أکملت لکم دينکم وأتممت عليکم نعمتي ورضيت لکم الإسلام دينا المائدۃ ( 5 / 3 ).
آج ميں نے تمہارے لئے دين کو کامل کرديا اور تم پر اپنا انعام پورا کرديا اور تمہارے لئے اسلام کے دين ہونے پر رضا مند ہوگيا.
اس مضمون كى آيات بہت ہيں.
اس طرح كى ميلادي مجالس کو ايجاد کرنے کا مفہوم يہ نکلتا ہے کہ اللہ تعالى نے اس امت کے لئے دين مکمل نہيں کيا، اور جن باتوں پر عمل کرنا امت کے لئے ضروري تھا رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے ان تک نہيں پہنچايا، يہاں تک کہ جب بعد ميں يہ بدعتي لوگ آئے تو انہوں نے اللہ تعالى كى شريعت ميں ايسي چيزوں کو ايجاد کيا جن كى اللہ تعالى نے اجازت نہيں دي تھي اور ان لوگوں نے يہ خيال کيا کہ يہ اعمال انہيں اللہ کے قريب کردينگے.
بلاشبہ دين ميں اس طرح كىنئي چيزوں کا ايجاد کرنا انتہائي خطرناک اور اللہ و رسول پر اعتراض ہے، حالانکہ اللہ سبحانہ وتعالى نے دين کو مکمل فرما کر اپني نعمت کا اتمام کرديا رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم نےواضح طور پردين کو پہنچا ديا اور انہيں جنت تک پہنچانے اور جہنم سے نجات دلانے والے ہر راستہ كى راہنمائي فرمادي .
جيسا کہ صحيح حديث ميں حضرت عبداللہ بن عمروبن عاص رضي اللہ عنہم سے مروي ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
"مابعث الله من نبي إلا کان حقا عليه أن يدل أمته على خيرما يعلمه لهم وينذرهم شرما يعلمه لهم"
اللہ نے جس نبي کوبھي بھيجا اس پر واجب تھا کہ وہ اپني امت کے لئے جن چيزوں ميں خير سمجھے ان كى راہنمائي کرے اورجن چيزوں ميں شر سمجھے ان سے روکے.
يہ بات معلوم ہے کہ ہمارے نبي محمد صلى اللہ عليہ وسلم انبياء ميں سب سے افضل اور سلسلہ نبوت كى آخري کڑي تھے اورامت تک دين پہنچانے اور ان كى خيرخواہي ميں سب سے کامل تھے، اگر يوم پيدائش کا جشن منانا اللہ تعالى کے پسنديدہ دين سے ہوتا تو اللہ کے رسول صلى اللہ عليہ وسلم اسے امت کے لئے ضرور بيان فرماتے، يا اپني حيات مبارکہ ميں اس طرح کے جشن منا کر دکھلاتے، يا کم از کم آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عليہم اجمعين آپ كى يوم پيدائش پر جشن ميلاد ضرور مناتے، ليکن جب عہد نبوي اور عہد صحابہ ميں يہ سب کچھ نہيں ہوا تو يہ بات واضح ہوگئى کہ محفل ميلاد کا اسلام سے کوئي واسطہ نہيں ہے، بلکہ وہ ان نئے ايجاد کردہ کاموں ميں سے ہے جن سے اللہ کے رسول صلى اللہ عليہ وسلم نے اپني امت کو بچنے كى تاکيد فرمائي ہے جيسا کہ سابقہ دونوں حديثوں ميں بدعات سے اجتناب كى تاکيد گزر چكى ہے، اور اس مفہوم ميں دوسري حديثيں بھي وارد ہيں جن ميں سے چند ايک ہم ذيل ميں ذکر کرتے ہيں.
مثلا خطبہ جمعہ ميں نبي صلى اللہ عليہ وسلم کا يہ فرمان:
" أمابعد فإن خيرالحديث کتاب الله وخيرالهدي هدي محمد صلى الله عليه وسلم وشرالأمور محدثاتها وکل بدعة ضلالة "
اما بعد بہترين کلام اللہ كى کتاب ہے اور سب سے اچھا طريقہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم کا طريقہ ہے، اور بدترين کام وہ ہيں جو دين ميں نئے ايجاد کئے جائيں اور ہر بدعت گمراہي ہے.
" اس حديث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے صحيح مسلم ميں روايت کيا ہے"
اس مضمون كى آيات واحاديث بہت زيادہ ہيں.
مذکورہ بالا اور ديگر دلائل كى بنياد پر علماء كى ايک جماعت نے ميلادي محفلوں کو صراحتاً خلاف شرع قرار ديا ہے اوران سے بچنے كى تاکيد كى ہے.
ليکن بعض متاخرين نے فريق اول كىرائے سے اختلاف کرتے ہوئے ان ميلادي محفلوں کے انعقاد کو اس شرط کے ساتھ جائز قرار ديا ہے کہ وہ خلاف شرع ناجائزکاموں پر مشتمل نہ ہوں مثلا: رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم کے بارے ميں غلو کرنا، مرد وزن کا اختلاط، گانے بجانے کے آلات کا استعمال اور ان کے علاوہ وہ تمام چيزيں جن کو شريعت مطہرہ غلط قرار ديتي ہے.
جواز کے قائلين ان ميلادوں کوبدعت حسنہ سمجھتے ہيں
ايک شرعي قائدہ:
شريعت کے جس مسئلہ ميں لوگ تنازع کا شکار ہوجائيں اسے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ كى جانب لوٹايا جائے.
جيسا کہ اللہ عزوجل نے فرمايا:
ياأيهاالذين آمنوا اطيعوا الله واطيعوا الرسول وأولي الأمرمنکم فإن تنازعتم في شيء فردوه إلى الله والرسول إن کنتم تؤمنون بالله واليوم الآخرذلك خيروأحسن تأويلا النساء ( 4 / 59 ) .
اے ايمان والو! فرمانبرداري کرو اللہ كى اور فرمانبرداري کرو رسول اللہ ( صلى اللہ عليہ وسلم ) كى اور تم ميں سے اختيار والوں کي، پھر اگر كسىچيز ميں اختلاف کرو تواسے لوٹا دو اللہ تعالى كى طرف اور رسول كى طرف اگر تمہيں اللہ تعالى پر اور قيامت کے دن پر ايمان ہے، يہ بہت بہتر ہے اورباعتبار انجام کے بہت اچھا ہے.
نيزاللہ تعالى نے فرمايا:
ومااختلفتم فيه من شيء فحکمه إلى الله الشورى ( 42 / 10 )
اورجس چيز ميں تمہارا اختلاف ہو اس کا فيصلہ اللہ تعالى كى طرف ہے.
چنانچہ جب ہم نے مسئلہ ميلاد کو اللہ تعالى كى کتاب قرآن مجيد كى جانب لوٹايا تو ہم نے رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم كى لائي ہوئي شريعت كى پيروي كى اورمنع کردہ چيزوں سے اجتناب کا حکم ديتے ہوئے پايا، اور يہ کہ اللہ سبحانہ وتعالى نے اس امت کے لئے دين کو مکمل فرماديا ہے اور يہ ميلاديں رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم كى لائي ہوئي شريعت ميں سے نہيں ہيں، لہذا يہ بات واضح ہوگئى کہ محفل ميلاد کا تعلق اس کامل اکمل دين سے نہيں ہے، جس کے بارہ ميں رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم كى اتباع کا ہميں حکم ديا گيا ہے.
اسي طرح ہم نے اس مسئلہ کو سنت رسول كى جانب بھي لوٹايا تواس بارے ميں نہ تو نبي صلى اللہ عليہ وسلم کا کوئي عمل اور نہ ہي کوئي حکم اورنہ ہي صحابہ کا کوئي عمل ملا تواس سے يہ بات واضح ہوگئى کہ محفل ميلاد کا دين سے کوئي تعلق نہيں ہے، بلکہ وہ بدعت اوردين ميں نئي پيدا کردہ چيز ہے، نيز اس ميں يہود ونصارى كى عيدوں سے مشابہت پائي جاتي ہے.
چنانچہ معمولي درجہ كى بصيرت، معرفت حق کا شوق اور اس كى طلب ميں انصاف پسندي رکھنے والے ہرشخص پر يہ بات عياں ہو جائے گي کہ محفل ميلاد کا دين اسلام سے کوئي تعلق نہيں ہے، بلکہ وہ ان نوايجاد بدعات ميں سے ہے جن سے اللہ اور اس کے رسول نے بچنے كى تاکيد كى ہے.
ايک صاحب عقل وخرد کو اس بات سے دھوکہ نہيں کھانا چاہئے کہ جابجا لوگ کثرت سے محفل ميلاد منعقد کرتے ہيں کيونکہ حق زيادہ لوگوں کے کرنے سے نہيں بلکہ شريعت كى دليلوں سے پہچانا جاتا ہے.
جيسا کہ اللہ نے يہود ونصارى كى بابت فرمايا:
وقالوا لن يدخل الجنة إلا من کان هودا أونصارى تلك أمانيهم قل هاتوا برهانکم إن کنتم صادقين البقرۃ ( 2 / 111 )
يہ کہتے ہيں کہ جنت ميں يہودونصارى کے سوا کوئي نہيں جائے گا يہ صرف ان كى آرزوئيں ہيں ان سے کہو کہ اگر تم سچے ہو تو کوئي دليل پيش کرو.
نيز ارشاد باري تعالى ہے:
وإن تطع اکثر من في الأرض يضلوك عن سبيل الله الانعام ( 6 / 116 ).
اور دنيا ميں زيادہ لوگ ايسے ہيں کہ اگر آپ ان کا کہنا ماننے لگيں توآپ کواللہ كى راہ سے بے راہ کردينگے.
ان ميلادي محفلوں کے بدعت ہونے کے ساتھ يہ بھي واضح رہے کہ اکثر وبيشتر ميلاد كى ان محفلوں ميں ديگر حرام کارياں بھي ہوتي ہيں مثلا مرد وزن کا اختلاط، گانے بجانے ڈھول تاشے کے آلات، اور نشہ آور اشياء کا استعمال اور ان کے علاوہ ديگر بہت سي برائياں اور بسا اوقات ان محفلوں ميں مذکورہ برائيوں سے بڑھ کر شرک اکبر تک کا ارتکاب کيا جاتا ہے.
مثلا: رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم كى ذات يا ديگر اولياء کرام کے بارے ميں غلوکرنا، انہيں پکارنا، ان سے فرياد رسي اورمدد کا سوال کرنا، وغيرہ اور ان كى بابت يہ اعتقاد رکھنا کہ وہ غيب جانتے ہيں اور اس طرح کے بہت سےکفريہ اعتقادات جن کا ارتکاب ميلاد نبوي اور اولياء کے ميلادوں کے موقع پر کرتے ہيں.
رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم سے صحيح حديث ميں ثابت ہے کہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" إياکم والغلو في الدين فإنما أهلك من کان قبلکم الغلو في الدين "
دين ميں غلو سے بچو کيونکہ تم سے پہلے لوگوں كى ہلاکت کا سبب دين ميں غلو تھا.
نيز نبي صلى اللہ عليہ وسلم نے ايک دوسري حديث ميں فرمايا:
" لاتطروني کما أطرت النصارى عيسى ابن مريم إنما أنا عبد فقولوا عبدالله ورسوله "
( اخرجہ البخاري في صحيحہ من حديث عمربن عبداللہ رضي اللہ عنہ )
تم ( حدسے زيادہ تعريفيں کرکے ) مجھے ميرے مقام سے آگے نہ بڑھاؤ جيسا کہ نصارى نے عيسى بن مريم کو حد سے آگے بڑھا ديا تھا، ميں اللہ کا بندہ ہوں لہذا مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہي کہو.
قابل تعجب بات يہ ہے کہ بہت سے لوگ اس طرح کے غيرشرعي اجتماعات ميں شرکت کے لئے انتہائي سرگرم اور کوشاں نظرآتے ہيں اور بوقت ضرورت اس كى جانب سے دفاع بھي کرتے ہيں، جبکہ دوسري طرف وہي لوگ جمعہ وجماعت اور اللہ کے ديگر فرائض سےبالکل پيچھے نظر آتے ہيں، نہ ہي وہ فرائض كى کچھ پرواہ ہي کرتے ہيں اور نہ ہي ان کے چھوڑنے کو کوئي بڑا گناہ سمجھتے ہيں ، بلا شبہ يہ سب کچھ کمزور ايمان، کم علمي، اور گوناگوں گناہوں کے ارتکاب کے سبب دلوں کے انتہائي زنگ آلود ہوجانے كى وجہ سے ہے، ہم اللہ تعالى سے اپنے اور تمام مسلمان بھائيوں کے لئے عافيت کا سوال کرتے ہيں.
ميلاد كى ان محفلوں ميں ايک قبيح اور بدترين عمل يہ بھي انجام پاتا ہے کہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم كى ولادت کا ذکر آنے پر بعض لوگ ازروئے تعظيم وتکريم آپ کا خير مقدم کرتے ہوئے کھڑے ہوجاتے ہيں، کيونکہ ان کا عقيدہ ہے کہ رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميلاد ميں حاضر ہوتے ہيں، يہ عظيم ترين جھوٹ اور بد ترين جہالت ہے، کيونکہ رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم قيامت سے قبل اپني قبر مبارک سے نہ تو نکل سکتے ہيں اور نہ لوگوں ميں سے كسى سے ملاقات کرسکتے ہيں، اور نہ ہي ان مجلسوں ميں حاضر ہوسکتے ہيں، بلکہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم اپني قبر ميں قيامت تک رہيں گے، اور آپ صلى اللہ عليہ وسلم كى روح مبارک دارکرامت ( جنت ) ميں اپنے رب کے پاس اعلى عليين ميں ہے.
جيسا کہ اللہ تعالى نے سورۃ المومنون ميں فرمايا :
ثم إنکم بعد ذلك لميتون ثم إنکم يوم القيامة تبعثون المؤمنون ( 15/16 ) .
اس کے بعد پھر تم سب يقينا مرجانے والے ہو، پھر قيامت کے دن بلاشبہ تم سب اٹھائے جاؤگے.
اور نبي اکرم صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" أنا أول من ينشق عنه القبر يوم القيامة وأنا أول شافع وأول مشفع "
بروز قيامت سب سے پہلے ميري قبر پھٹے گي اور ميں قبرسے باہر نکلوں گا، اورميں سب سے پہلا سفارشي ہوں گا، اورسب سے پہلے ميري سفارش قبول ہوگي . ( آپ صلى اللہ عليہ وسلم پر رب كى جانب سے درود وسلام نازل ہو )
مذکورہ بالا آيت کريمہ اور حديث نبوي اور اس معني كى ديگر آيات واحاديث اس بات پر دلالت کرتي ہيں کہ نبي صلى اللہ عليہ وسلم اور آپ کے علاوہ ديگر مردے قيامت کے روز ہي اپني قبروں سے نکليں گے يہ علماء اسلام کا متفق عليہ مسئلہ ہے، اس ميں كسى کا کوئي اختلاف نہيں.
لہذا ہر بندہ مسلم کو اس طرح کے مسائل سے واقف ہونا چاہئے اور جاہلوں كى نوايجاد بدعات وخرافات سے گريز کرنا چاہئے جس پر اللہ نے کوئي دليل نازل نہيں فرمائي ہے.
ہم اللہ ہي سے مدد کاسوال کرتے، اسي پر بھروسہ رکھتے ہيں، اور ہم اس بلند وبرتر اللہ كى مدد کے بغير گناہوں سے بچنے اور نيکيوں کے بجا لانے كى طاقت نہيں رکھتے ہيں.
رہا مسئلہ نبي صلى اللہ پر درود وسلام بھيجنے کا تويہ تقرب الہي کا افضل ترين ذريعہ اعمال صالحہ ميں ايک ہے.
جيسا کہ اللہ تعالي نے فرمايا:
إن الله وملائکته يصلون على النبي ياأيهاالذين آمنوا صلوا عليه وسلموا تسليما الاحزاب (33/ 56)
اللہ اور اس کے فرشتے نبي صلى اللہ عليہ وسلم پر رحمت بھيجتے ہيں اے ايمان والو! تم بھي ان پر درود بھيجو اور خوب سلام بھيجتے رہا کرو.
اور نبي صلى اللہ عليہ وسلم نے ايک حديث ميں فرمايا:
" من صلى على واحدة صلى الله عليه بها عشرا "
جوشخص ميرے اوپر ايک بار درود بھيجے تواللہ اس پردس بار رحمتيں نازل فرماتا ہے، نبي صلى اللہ عليہ وسلم پر درود بھيجنے کا کوئي مخصوص وقت نہيں ہے، بلکہ كسى بھي وقت آپ پردرود بھيجا جاسکتا ہے، نماز کے آخر يعني تشہد ميں اس کے پڑھنے كى تاکيد ہے، بلکہ بعض اہل علم کے نزديک ہر نماز کے آخري تشہد ميں اس کا پڑھنا واجب ہے، اوربہت سے مقامات پرسنت مؤکدہ ہے، مثلا اذان کے بعد، آپ صلى اللہ عليہ وسلم کے تذکرہ کے وقت، جمعہ کے دن، اوراس كى رات ميں جيسا کہ بہت سي احاديث سے ان کا ثبوت ملتا ہے.
اللہ تعالي سے دعا ہے کہ وہ ہميں اور تمام مسلمانوں کو دين كى سمجھ اور اس پر ثابت قدم رہنے كى توفيق عطا فرمائے، اور ہر ايک کو سنت پر کاربند اوربدعت سےاجتناب كى نعمت سے نوازے وہ اللہ سخي اورمہربان ہے، اور اللہ تعالى ہمارے نبي محمد صلى اللہ عليہ وسلم آپ کے اہل وعيال اورساتھيوں پر رحمت نازل فرمائے.
شيخ رحمہ اللہ كا ايك دوسرى جگہ يہ فرمانا ہے:
" اگر ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم مشروع ہوتى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنى امت كے ليے اسے ضرور بيان فرماتے؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم لوگوں ميں سب سے زيادہ خيرخواہ تھے، اور آپ صلى اللہ عليہ وسلم كے بعد كوئى نبى نہيں جو كوئى ايسى بات بيان كرے جس سے نبى كريم صلى اللہ وسلم خاموش رہے ہوں؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم خاتم النبيين ہيں.
كتاب و سنت ميں يہ پورى وضاحت كے ساتھ بيان ہوا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا لوگوں پر كيا حق ہے آپ كے حقوق ميں آپ سے محبت كرنا، اور آپ كى شريعت اور سنت مطہرہ كى پيروى و اتباع كرنا شامل ہے اور اس كے علاوہ باقى حقوق كى ادائيگى كرنا بھى جن كى وضاحت قرآن و سنت ميں ہوئى ہے.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى امت كے ليے يہ ذكر نہيں كيا كہ ان كى ولادت باسعادت كا جشن ميلاد النبى منانا مشروع ہے تا كہ اس پر عمل كيا جائے اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے خود بھى سارى زندگى اس پر عمل نہيں كيا اور نہ پھر آپ كے بعد صحابہ كرام جو سب لوگوں سے زيادہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے محبت كرنے والے تھے، اور آپ صلى اللہ عليہ وسلم كے حقوق كو جاننے والے اور علم ركھنے والے تھے.
نہ تو انہوں نے اور نہ ہى خلفاء راشدين نے اور نہ ہى كسى اور نے ميلاد النبى كا جشن منايا، پھر قرون مفضلہ يعنى پہلے تين بہترين دور كے لوگوں نے بھى اس جشن كو نہيں منايا، كيا آپ كے خيال ميں يہ سب لوگ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے حقوق كى ادائيگى ميں كمى و كوتاہى كرنے والے تھے، حتى كہ يہ بعد ميں آنے والے افراد نے اس نقص اور كمى كو واضح كيا اور اس حق كو پورا كيا؟!
نہيں اللہ كى قسم ايسا نہيں ہو سكتا كہ يہ سب صحابہ كرام اور آئمہ كرام آپ صلى اللہ عليہ وسلم كے حقوق سے جاہل و غافل تھے، يا اس ميں كمى و كوتاہى كى، كوئى عقلمند ايسى بات اپنى زبان سے نكال ہى نہيں سكتا جو ان صحابہ كرام اور تابعين عظام كے حالات سے واقف ہو.
عزيز قارئين كرام جب آپ كے علم ميں آگيا كہ ميلاد النبى كى جشن نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں موجود نہ تھا اور نہ ہى صحابہ كرام اور تابعين عظام اور آئمہ كرام كے ادوار ميں اس پر عمل كيا گيا، اور نہ ہى يہ چيز ان كے ہاں معروف تھى اس سے آپ كو يہ علم بھى ہو گيا كہ يہ دين ميں نيا ايجاد كردہ كام ہے اور يہ بدعت كہلاتا ہے اس پر عمل كرنا جائز نہيں، اور نہ ہى اس كى دعوت دينى اور اس ميں شريك ہونا جائز ہے، بلكہ اس سے روكنا اور منع كرنا اور لوگوں كو اس سے بچانا واجب ہے "
ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن باز ( 6 / 318 – 319 ).
پنجم:
كسى بھى شخص كے ليے كسى دعاء اور ذكر كى اختراع كرنا اور اسے نشر كرنا اور پھيلانا جائز نہيں، اور " دعاء الرابطہ " نامى دعاء بدعت ہے اور اس ميں يہ سوچ اور فكر پيش كى گئى ہے كہ جن سے مانگا جا رہا ہے انہيں ذہن ميں اپنے سامنے ركھا جائے اور يہ اعتقاد ہونا چاہيے كہ وہ دعاء كرنے والے كو پہچانتے ہيں اور انہيں جنت ميں بلائينگے: يہ سب وہمى خيالات اور صوفيوں كى اختراعات ہيں جن كى دين اسلام ميں كوئى اصل نہيں ملتى.
وہ شرعى ضوابط اور اصول و قواعد جن سے مسلمان شخص سنت اور بدعت اور غلط و صحيح كى پہنچان كر سكتا ہے وہ بالكل واضح ہيں وہ اس طرح كہ:
عبادات ميں اصل ممانعت ہے، ليكن جب كسى عبادت كى دليل مل جائے تو وہ جائز ہے، اس ليے اللہ كى عبادت اور اللہ كا قرب اس صورت ميں ہى كيا جائيگا جس كى كتاب و سنت ميں اس كى مشروعيت پر كوئى دليل ملتى ہو.
اور مسلمان كے ليے دوسرا اصول يہ ہے كہ وہ اتباع و پيروى كرے نہ كہ ابتداع يعنى بدعات كى ايجاد اور بدعات پر عمل، كيونكہ بدعت كا عمل كرنے والے كا وہ عمل مردود ہے اس كے منہ پر دے مارا جائيگا.
اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى نے تو ہمارے ليے شريعت كى تكميل كر دى ہے، اور اپنى نعمت ہم پر مكمل كر دى ہے، پھر اس طرح كى بدعت كيا ضرورت ہے كہ وہ ہمارى زندگى ميں ضرور ہونى چاہيے حالانكہ جو صحيح اور ثابت ہے اس پر تو ہم عمل پيرا نہيں ہوتے ؟
مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 6745 ) اور ( 27237) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.
اميد ہے كہ جو كچھ بيان كر ديا گيا ہے ان بہنوں كے ليے اس قسم كى بدعات سے اجتناب كرنے كے ليے وہى كافى ہوگا، اور ہم ان بہنوں كو وصيت كرتے ہيں كہ وہ اللہ كا تقوى و پرہيزگارى اختيار كرتے ہوئے اچھى طرح سنت كى پيروى كريں.
اور انہيں يہ علم ہونا چاہيے كہ اللہ تعالى بدعتى كى عبادت قبول نہيں فرماتا چاہے وہ جتنى بھى كوشش و جدوجھد كرے اور كتنا بھى مال اس ميں صرف كر ڈالے كيونكہ " سنت پر عمل كرنا چاہيے سنت تھوڑى ہى ہو بدعت ميں اجتھاد كرنے سے بہتر ہے " جس طرح جليل القدر صحابى رسول صلى اللہ عليہ وسلم عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ عنہ كا قول ہے.
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ ہمارى ان بہنوں كو ان اعمال اور طريقہ كى راہنمائى فرمائے جس ميں اللہ كى رضا و خوشنودى پنہاں ہے، اور ہم آپ كو حسن تبليغ كى وصيت كرتے ہيں كہ آپ اچھے اور بہتر اسلوب ميں انہيں سنت پر عمل كرنے كى دعوت ديں اور آپ اس ميلاد ميں ان كے ساتھ شريك مت ہوں اور اس ميں جو تكليف آپ كو پہنچے اس پر صبر و تحمل سے كام ليں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات