شفاعت کسے کہتے ہیں؟ اور کیا اس کی اقسام بھی ہیں؟ کیا شفاعت کا حق صرف انبیائے کرام کو حاصل ہو گا یا عوام الناس بھی شفاعت کر پائیں گے؟ اور کیا کچھ لوگ ایسے بھی ہوں گے جن کی شفاعت قبول نہیں کی جائے گی؟
قیامت کے دن شفاعت
سوال: 21672
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
جس وقت میدان محشر میں لوگوں نہایت تنگی میں ہوں گے، ان کے لیے مزید انتظار کرنا مشکل ترین ہو جائے گا، انہیں میدان محشر میں جمع ہوئے عرصہ بیت چکا ہو گا، ساتھ میں گرمی اور ہولناکی الگ سے لوگوں کی تکلیف میں اضافہ کرے گی، اسی کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تمہاری اس وقت حالت کیا ہو گی جب تم سب کو اللہ تعالی 50 ہزار سال کے لیے جمع فرمائے گا جیسے ترکش میں تیر جمع کیے جاتے ہیں، پھر اللہ تعالی تمہاری طرف دیکھے گا بھی نہیں۔) سلسلہ صحیحہ: (2817)۔ اس کے بعد لوگ عالی مرتبت افراد کو سفارش کے لیے تلاش کرنا شروع کریں گے کہ کوئی اللہ تعالی کی بارگاہ میں شفاعت کرے کہ اللہ تعالی انہیں اس آزمائش کی گھڑی سے نکالے اور اللہ تعالی لوگوں کے درمیان فیصلے فرمانے کا آغاز فرما دے۔ تو لوگ پہلے آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے تو آدم علیہ السلام معذرت پیش کر دیں گے، پھر وہ نوح علیہ السلام کے پاس آئیں گے تو وہ بھی معذرت کر لیں گے، اس کے بعد وہ ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئیں گے تو وہ بھی معذرت کر کے پیچھے ہٹ جائیں گے، پھر لوگ موسی علیہ السلام کے پاس آئیں گے تو آپ بھی شفاعت کرنے سے گریزاں رہیں گے، اس کے بعد لوگ عیسی علیہ السلام کے پاس آئیں گے تو وہ بھی عذر پیش کر کے پیچھے ہٹ جائیں گے، اور آخر کار سب لوگ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئیں گے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم انہیں فرمائیں گے کہ: (میں اس کی اہلیت رکھتا ہوں۔ میں اس کی اہلیت رکھتا ہوں۔) تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم میدان محشر میں جمع لوگوں کے فیصلے شروع کرنے کے لیے شفاعت کریں گے ، اور یہی وہ مقام محمود ہو گا جس کا اللہ تعالی نے پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم سے وعدہ فرمایا ہوا ہے، اور قرآن کریم میں اس کا تذکرہ کچھ یوں ہے: وَمِنْ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَكَ عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا ترجمہ: رات کے کچھ حصے میں تہجد کی نماز میں قرآن کی تلاوت کریں ، یہ آپ کے لئے اضافی عبادت ہے ، عنقریب آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر فائز فرمائے گا۔ [الاسراء: 79]
ذیل میں آپ کے سامنے طویل حدیث شفاعت پیش کرتے ہیں، چنانچہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حدیث بیان کی اور فرمایا: (قیامت کا دن جب آئے گا تو لوگ ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی طرح آئیں گے۔ پھر وہ آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور ان سے کہیں گے کہ ہماری اپنے رب کے ہاں شفاعت کیجئے۔ وہ کہیں گے کہ میں اس قابل نہیں ہوں تم ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ، وہ اللہ کے خلیل ہیں۔ تو لوگ ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئیں گے وہ بھی کہیں گے کہ میں اس قابل نہیں ہوں، البتہ تم موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ کہ وہ اللہ سے شرف ہم کلامی پا چکے ہیں۔ لوگ موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گے تو وہ بھی کہیں گے کہ میں اس قابل نہیں ہوں، تاہم تم عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ کہ وہ روح اللہ اور کلمۃ اللہ ہیں ۔ چنانچہ لوگ عیسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گے وہ بھی کہیں گے کہ میں اس قابل نہیں ہوں، ہاں تم محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس جاؤ۔ لوگ میرے پاس آئیں گے اور میں کہوں گا کہ میں شفاعت کے لیے ہوں اور پھر میں اپنے رب سے اجازت چاہوں گا اور مجھے اجازت دی جائے گی اور اللہ تعالیٰ تعریفوں کے ایسے الفاظ مجھے الہام کرے گا جن کے ذریعے میں اللہ کی حمد بیان کروں گا وہ الفا ظ اس وقت مجھے نہیں آتے ۔ چنانچہ جب میں اللہ تعالی کی تعریفیں بیان کروں گا اور اللہ کے سامنے میں سجدہ ریز ہو جاؤں گا تو مجھ سے کہا جائے گا: اے محمد! اپنا سر اٹھاؤ، جو کہو وہ سنا جائے گا، جو مانگو گے وہ دیا جائے گا، جو شفاعت کرو گے قبول کی جائے گی۔ پھر میں کہوں گا: اے رب! میری امت، میری امت، تو اللہ تعالی فرمائے گا کہ: جاؤ اور ان لوگوں کو نکال لو جن کے دل میں جو کے برابر بھی ایمان ہو۔ چنانچہ میں جاؤں گا اور ایسا ہی کروں گا۔
پھر میں لوٹوں گا اور وہی تعریفیں بیان کروں گا اور اللہ کے سامنے میں سجدہ ریز ہو جاؤں گا تو مجھ سے کہا جائے گا: اے محمد! اپنا سر اٹھاؤ، جو کہو گے سنا جائے گا، اور جو مانگو گے وہ دیا جائے گا، جو شفاعت کرو گے قبول کی جائے گی۔ پھر میں کہوں گا: اے رب! میری امت، میری امت، تو اللہ تعالی فرمائے گا کہ: جاؤ اور ان لوگوں کو نکال لو جن کے دل میں ذرے یا رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو۔ چنانچہ میں جاؤں گا اور ایسا ہی کروں گا۔
میں [تیسری بار] پھر لوٹوں گا اور وہی تعریفیں بیان کروں گا اور اللہ کے سامنے میں سجدہ ریز ہو جاؤں گا تو مجھ سے کہا جائے گا: اے محمد! اپنا سر اٹھاؤ، جو کہو گے سنا جائے گا، جو مانگو گے وہ دیا جائے گا، جو شفاعت کرو گے قبول کی جائے گی۔ پھر میں کہوں گا: اے رب! میری امت، میری امت، تو اللہ تعالی فرمائے گا کہ: جاؤ اور ان لوگوں کو نکال لو جن کے دل میں چھوٹے سے چھوٹے رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو۔ چنانچہ میں جاؤں گا اور ایسا ہی کروں گا۔
پھر جب ہم انس رضی اللہ عنہ کے پاس سے نکلے تو میں نے اپنے بعض ساتھیوں سے کہا کہ ہمیں حسن بصری رحمہ اللہ کے پاس بھی چلنا چاہیے ، وہ اس وقت ابوخلیفہ کے مکان میں روپوش تھے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ یہی حدیث بیان کریں جو انہوں نے ہم سے بیان کی ہے۔
چنانچہ ہم ان کے پاس آئے اور انہیں سلام کیا۔ انہوں نے ہمیں اندر آنے اجازت دی اور ہم نے ان سے کہا: اے ابو سعید! ہم آپ کے پاس آپ کے بھائی انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے ہاں سے آئے ہیں اور انہوں نے ہم سے جو شفاعت کے متعلق حدیث بیان کی، اس جیسی حدیث ہم نے پہلے کبھی نہیں سنی، انہوں نے کہا : بیان کرو کون سی ہے؟۔ ہم نے ان سے حدیث بیان کی جب اس مقام تک پہنچے تو انہوں نے کہا کہ آگے پوری کرو۔ تو ہم نے کہا کہ اس سے زیادہ انہوں نے نہیں بیان کی۔ انہوں نے کہا کہ انس رضی اللہ عنہ اب سے بیس سال پہلے جب صحت مند تھے، تو انہوں نے مجھ سے یہ حدیث بیان کی تھی۔ مجھے معلوم نہیں کہ وہ باقی بھول گئے یا اس لیے بیان کرنا ناپسند کیا کہ کہیں لوگ بد اعتمادی میں ملوث نہ ہو جائیں ۔ ہم نے کہا ابو سعید! پھر ہمیں حدیث کا بقیہ حصہ بیان کیجئے۔ آپ رحمہ اللہ اس پر ہنسے اور فرمایا: انسان بڑا جلد باز پیدا کیا گیا ہے۔ میں نے اس کا ذکر ہی اس لیے کیا ہے کہ تم سے بیان کرنا چاہتا ہوں۔ انس رضی اللہ عنہ نے مجھ سے اسی طرح حدیث بیان کی جس طرح تم سے بیان کی (اور اس میں مجھے یہ بھی بتلایا تھا کہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ پھر میں چوتھی مرتبہ لوٹوں گا اور وہی تعریفیں کروں گا اور اللہ کے لیے سجدہ میں چلا جاؤں گا۔ اللہ فرمائے گا: اے محمد! اپنا سر اٹھاؤ، جو کہو گے سنا جائے گا، جو مانگو کے دیا جائے گا، جو شفاعت کرو کے قبول کی جائے گی۔ میں کہوں گا: اے رب! مجھے ان کے بارے میں بھی اجازت مرحمت فرمائیں جنہوں نے لا الہٰ الا اللہ کہا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا میری عزت، میرے جلال، میری کبریائی، میری بڑائی کی قسم! اس میں سے (میں) انہیں بھی نکالوں گا جنہوں نے کلمہ لا الہٰ الا اللہ کہا ہے۔) اسے بخاری (7510) نے روایت کیا ہے۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : (قیامت کے دن میں سب لو گوں کا سر دار ہو ں گا، کیا تمہیں معلوم بھی ہے یہ کیسے ہو گا ؟ اس دن اول تا آخر ساری کی ساری خلقت ایک ہموار میدان میں جمع ہو گی کہ ایک پکا ر نے والے کی آواز سب کے کانوں تک پہنچ سکے گی اور سب کے سب ایک دوسرے کو دیکھ سکیں گے ۔ سورج بالکل قریب ہو جائے گا اور لوگوں کی پریشانی اور بے قراری کی کوئی حد نہ رہے گی اور تکلیف قوت برداشت سے باہر ہو جائے گی ۔ پھر آپس میں کہیں گے ، دیکھتے نہیں کہ کیا حالت ہو گئی ہے ۔ کیا ایسا کوئی مقبول بندہ نہیں ہے جو اللہ تعالی کی بارگاہ میں تمہاری شفاعت کرے ؟ بعض لوگ دوسروں سے کہیں گے کہ سیدنا آدم علیہ السلام کے پاس چلنا چاہیے۔ چنانچہ سب لوگ آدم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے ۔۔۔ [پھر حدیث کا بقیہ حصہ بیان کرنے کے بعد کہا:] آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ آخر میں آگے بڑھوں گا اور عرش تلے پہنچ کر اپنے رب عزوجل کے لیے سجدہ ریز ہو جاؤں گا ، پھر اللہ تعالیٰ مجھ پر اپنی بہترین حمد اور حسنِ ثنا کے دروازے کھول دے گا کہ مجھ سے پہلے کسی کو وہ طریقے اور وہ محامد نہیں بتائے ہوں گے۔ پھر کہا جائے گا ، اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم ! اپنا سر اٹھایئے ، مانگئے آپ کو دیا جائے گا ۔ شفاعت کیجئے ، آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی ۔ تو میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور عرض کروں گا ۔ اے میرے رب ! میری امت ، اے میرے رب ! میری امت [پر کرم کر]، کہا جائے گا اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم ! اپنی امت کے ان لوگوں کو جن پر کوئی حساب نہیں ہے ، جنت کے دائیں دروازے سے داخل کیجیے ویسے وہ جس دروازے سے چاہیں دوسرے لوگوں کے ساتھ جنت میں داخل ہو سکتے ہیں ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ۔ جنت کے دروازے کے دونوں چوکھاٹ کے درمیان میں اتنا فاصلہ ہے جتنا مکہ اور حمیر میں ہے یا جتنا مکہ اور بصریٰ میں ہے ۔) اسے بخاری: (4712) نے روایت کیا ہے۔
تو یہ میدان محشر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ مختص شفاعت کبری ہے ، یہ شفاعت لوگوں کے درمیان فیصلے شروع کروانے کے لیے ہو گی ، بنیادی طور پر قیامت کے دن شفاعت کی دو قسمیں ہیں:
- مقبول شفاعت، یا ثابت شدہ شفاعت : اس سے مراد وہ شفاعت ہے جو کہ شرعی نصوص سے ثابت شدہ ہے، اس کی تفصیلات آئندہ بیان ہو گی۔
- مردود شفاعت، یا نفی شدہ شفاعت: اس سے مراد وہ شفاعت ہے جن کی کتاب و سنت کی نصوص سے روشنی تردید ثابت ہے، اس کی تفصیلات بھی آئندہ بیان ہوں گی۔
مقبول شفاعت کی متعدد اقسام ہیں:
- شفاعت عظمی، اس سے مراد مقام محمود پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی جانب سے کی جانے والی شفاعت ہے، یہی وہ شفاعت ہے جس کے لیے کل کائنات کے انسان نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف آئیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے بار گاہِ الہی میں شفاعت کرنے کی عرض رکھیں گے، تا کہ اللہ تعالی ان کا حساب شروع فرمائے اور میدان محشر کی ہولناکی سے ان کی گلو خلاصی ہو، اس کی تفصیلات پہلے بیان ہو چکی ہیں۔
- توحید پرست لیکن جہنم میں چلے جانے والے کبیرہ گناہوں میں ملوث افراد کے لیے شفاعت کہ انہیں جہنم سے نکالا جائے۔ اس کی دلیل سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (میری شفاعت میری امت کے کبیرہ گناہوں کے مرتکبین کے لیے ہو گی۔) صحیح سنن ترمذی: (1983)
- رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ایسے لوگوں کے متعلق شفاعت جن کی نیکیاں اور برائیاں برابر ہو جائیں گی، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان کے جنت میں داخلے کے لیے شفاعت کریں گے، اسی طرح کچھ لوگ ایسے ہوں گے جن کو جہنم میں پھینکنے کا حکم دیا جا چکا ہو گا، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان کے لیے شفاعت کریں گے کہ انہیں جہنم میں نہ ڈالا جائے۔
- ایسی اقوام کے متعلق شفاعت جنہیں جنت میں بغیر حساب کے داخل کیا جائے گا۔
- آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اپنے چچا ابو طالب کے حق میں شفاعت، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی شفاعت کی بدولت اس کے عذاب میں تخفیف کر دی جائے گی، شفاعت کی یہ قسم آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ خاص ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم یہ شفاعت صرف اپنے چچا کے بارے میں کر پائیں گے۔
- نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی اہل ایمان کے جنت میں داخل ہونے کی اجازت کے لیے شفاعت ۔
گناہگاروں کے لیے شفاعت نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ اس میں دیگر انبیائے کرام، شہداء، علمائے کرام، اور نیک لوگوں سمیت فرشتے بھی شامل ہوں گے، قیامت کے دن یہ بھی ہو گا کہ نیک اعمال انسان کی شفاعت کریں گے، تاہم یہ سب سے واضح بات ہے کہ شفاعت کے معاملے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا حصہ سب سے زیادہ ہو گا۔
آپ کے سامنے ہم شفاعت کی احادیث میں سے ایک حدیث رکھتے ہیں جس میں تمام ابنیائے کرام سمیت دیگر لوگوں کی سفارش کا ذکر بھی موجود ہے، چنانچہ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : ہم نے ایک بار عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا ہم قیامت کے دن اللہ تعالی کا دیدار کریں گے؟ ۔۔۔ تو پھر نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے لمبی حدیث ذکر فرمائی، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم اہل ایمان کے پل صراط سے گزرنے اور جہنم میں داخل ہونے والوں کے لیے اہل ایمان کی سفارش کے تذکرے پر پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جنت میں جانے والوں کی شفاعت ذکر کی کہ: (اے ہمارے رب! ہمارے بھائی بھی ہمارے ساتھ نماز پڑھتے تھے اور ہمارے ساتھ روزے رکھتے تھے اور ہمارے ساتھ دیگر نیک اعمال کرتے تھے [انہیں بھی جہنم سے نجات عطا فرما۔] چنانچہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ جاؤ اور جس کے دل میں ایک دینار کے برابر بھی ایمان پاؤ تو اسے دوزخ سے نکال لو ۔ ادھر اللہ ان کے چہروں کو دوزخ پر حرام کر دے گا۔ چنانچہ وہ آئیں گے اور دیکھیں گے کہ بعض تو آگ میں پاؤں تک یا آدھی پنڈلی تک جلے ہوئے ہیں۔ چنانچہ جنہیں وہ پہچانیں گے انہیں دوزخ سے نکالیں گے۔ پھر واپس آئیں گے اور اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا کہ جاؤ اور جس کے دل میں آدھے دینار کے برابر بھی ایمان ہو اسے بھی نکال لاؤ۔ چنانچہ جن کو وہ پہچان جائیں گے ان کو نکال لیں گے۔ وہ پھر واپس آئیں گے اور اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ جاؤ اور جس کے دل میں ذرہ برابر ایمان ہو اسے بھی نکال لاؤ۔ چنانچہ جن کو وہ پہچان لیں گے انہیں وہ نکال لیں گے۔ سیدنا ابو سعید رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا کہ اگر تم میری بات پر مطمئن نہیں ہو تو پھر اللہ تعالی کا یہ فرمان پڑھ لو: إِنَّ اللَّهَ لا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضَاعِفْهَا یعنی: اللہ تعالیٰ ذرہ برابر بھی کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ اگر کوئی نیکی ہوئی تو وہ اسے بڑھا دیتا ہے۔ [النساء: 40] پھر انبیاء اور مومنین اور فرشتے شفاعت کریں گے اور پروردگار کا ارشاد ہو گا کہ اب خاص میری شفاعت باقی رہ گئی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ دوزخ سے ایک مٹھی بھر لے گا اور ایسے لوگوں کو نکالے گا جو کوئلہ ہو گئے ہوں گے۔ پھر وہ جنت کے سرے پر ایک نہر میں ڈال دئیے جائیں گے جسے آبِ حیات کی نہر کہا جاتا ہے اور یہ لوگ اس نہر کے دونوں کناروں پر ایسے پروان چڑھیں گے جس طرح سیلاب کے کوڑے کرکٹ سے سبزہ پروان چڑھتا ہے۔ تم نے یہ منظر کسی چٹان کے یا کسی درخت کے کنارے دیکھا ہو گا تو جس پر دھوپ پڑتی رہتی ہے وہ سبز رنگ کا ہوتا ہے اور جس پر سایہ ہوتا ہے وہ سفید رنگ کا ہوتا ہے۔ ان کے جسم اس طرح نکلیں گے جیسے موتی ہو۔ اس کے بعد ان کی گردنوں پر مہر لگا دی جائے گی (کہ یہ اللہ کے آزاد کردہ غلام ہیں) اور انہیں جنت میں داخل کیا جائے گا۔ اہل جنت انہیں «عتقاء الرحمن» کہیں گے۔ انہیں اللہ نے کسی بھی کی ہوئی نیکی کے بغیر جنت میں داخل کر دیا ہو گا، اور انہوں نے کبھی کوئی خیر کا کام نہیں کیا ہو گا۔ اور ان سے کہا جائے گا کہ تمہیں وہ سب کچھ ملے گا جو تم دیکھتے ہو اور اتنا ہی اور بھی ملے گا۔) اسے بخاری : (7440) نے روایت کیا ہے۔
قیامت کے دن شفاعت تبھی ہو گی جب اس میں تین شرائط پائیں جائیں گی، ان شرائط کے دلائل درج ذیل ہیں:
فرمانِ باری تعالی ہے:
وَكَمْ مِنْ مَلَكٍ فِي السَّمَاوَاتِ لا تُغْنِي شَفَاعَتُهُمْ شَيْئاً إِلَّا مِنْ بَعْدِ أَنْ يَأْذَنَ اللَّهُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَرْضَى
ترجمہ: آسمانوں میں کتنے ہی فرشتے ہیں جن کی سفارش کسی کے کچھ بھی کام نہ آئے گی الا یہ کہ اللہ تعالیٰ جس کے لئے چاہے اس فرشتے کو اس کا اذن دے اور وہ سفارش اسے پسند بھی ہو۔ [النجم: 26]
اسی طرح دوسری شرط کے بارے میں فرمایا: يَوْمَئِذٍ لا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَنُ وَرَضِيَ لَهُ قَوْلاً
ترجمہ: اس دن سفارش کچھ فائدہ نہ دے گی مگر جسے رحمٰن اجازت دے دے اور اس کی بات پر راضی ہو۔ [طہ: 109]
اور پھر تیسری شرط کے لیے فرمایا: يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلا يَشْفَعُونَ إِلا لِمَنِ ارْتَضَى وَهُمْ مِنْ خَشْيَتِهِ مُشْفِقُونَ
ترجمہ: اللہ ان بندوں کے سامنے کے (ظاہری) احوال کو بھی جانتا ہے اور پوشیدہ احوال کو بھی۔ اور وہ صرف اسی کے حق میں سفارش کر سکیں گے جس کے لئے اللہ راضی ہو اور وہ ہمیشہ اس کے خوف سے ڈرتے رہتے ہیں۔ [الانبیاء: 28]
اسی طرح فرمایا: مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلا بِإِذْنِهِ
ترجمہ: کون ہے جو اس کے پاس اس کی اجازت کے بغیر سفارش کر سکے۔ [البقرۃ: 255]
تو مندرجہ بالا آیات سے درج ذیل شرائط کشید ہوتی ہیں:
- شفاعت کنندہ کے لیے اللہ تعالی کی خاص اجازت کہ وہ سفارش کرے۔
- اللہ تعالی شفاعت کنندہ کی ذات سے راضی ہو۔
- جس کے لیے شفاعت کی جائے وہ بھی اللہ تعالی کے ہاں پسندیدہ ہو۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے کچھ احادیث میں منقول ہے کہ کچھ لوگوں کی شفاعت قیامت کے دن قبول نہیں کی جائی گی، ان میں سے ایک وہ شخص ہے جو بہت زیادہ لعن طعن کرتا ہے، چنانچہ سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے آپ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا: (یقیناً بہت زیادہ لعنت کرنے والے قیامت کے دن نہ تو گواہ ہوں گے اور نہ ہی سفارش کر سکیں گے۔) اسے مسلم : (2598) نے روایت کیا ہے۔
مردود شفاعت، یا نفی شدہ شفاعت وہ شفاعت ہے جس میں مقبول شفاعت والی اللہ تعالی کی طرف سے اجازت اور رضامندی پر مشتمل شرائط نہ پائی جائیں، مثلاً: ایسی شفاعت جو مشرکین اپنے معبودانِ باطلہ کے متعلق نظریہ رکھتے ہیں ؛ کیونکہ مشرکین نے ان کی عبادت اسی نظریے سے کی ہوتی ہے کہ یہ اللہ تعالی کے ہاں ان کے سفارشی ہوں گے، بلکہ ان کے نزدیک ان کے معبودانِ باطلہ اللہ تعالی اور ان کے درمیان رابطہ کار اور مڈل مین کا کردار ادا کرتے ہیں، اللہ تعالی نے ان کے اسی نظریے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
أَلا لِلَّهِ الدِّينُ الْخَالِصُ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَى إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فِي مَا هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي مَنْ هُوَ كَاذِبٌ كَفَّارٌ
ترجمہ: یاد رکھو! بندگی خالصتاً اللہ ہی کے لئے ہے اور جن لوگوں نے اللہ کے علاوہ کارساز بنا رکھے ہیں (وہ کہتے ہیں کہ) ہم تو ان کی عبادت صرف اس لئے کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب کر دیں۔ یقیناً اللہ ان کے درمیان فیصلہ کر دے گا جن باتوں میں یہ اختلاف کر رہے ہیں۔ اللہ ایسے شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو جھوٹا اور حق کا منکر ہو۔ [الزمر: 3]
تو اللہ تعالی نے ان کی شفاعت کے متعلق بتلا دیا کہ ان کی یہ شفاعت رونما ہی نہیں ہو سکے گی، نہ ہی اس کا کوئی فائدہ ہو گا، اسی سلسلے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے:
فَمَا تَنْفَعُهُمْ شَفَاعَةُ الشَّافِعِينَ
ترجمہ: تو انہیں کسی شفاعت کنندہ کی شفاعت فائدہ نہیں دے گی۔ [المدثر: 48]
اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے:
وَاتَّقُوا يَوْماً لا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئاً وَلا يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَلا يُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلا هُمْ يُنْصَرُونَ
ترجمہ: اور اس دن سے ڈرتے رہو جب نہ تو کوئی کسی دوسرے کے کام آ سکے گا، نہ اس کے حق میں سفارش قبول کی جائے گی، نہ ہی اسے معاوضہ لے کر چھوڑ دیا جائے گا اور نہ ہی ان کی مدد کی جا سکے گی۔ [البقرۃ: 48]
فرمانِ باری تعالی ہے: وَاتَّقُوا يَوْماً لا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئاً وَلا يُقْبَلُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلا تَنْفَعُهَا شَفَاعَةٌ وَلا هُمْ يُنْصَرُونَ
ترجمہ: اور اس دن سے ڈر جاؤ جب کوئی کسی دوسرے کے کام نہ آ سکے گا، اس دن نہ تو اس سے معاوضہ قبول کیا جائے گا اور نہ کسی کی سفارش اسے فائدہ دے گی، اور نہ ہی ان کی کوئی مدد کی جا سکے گی۔ [البقرۃ: 123]
ایک اور مقام پر فرمایا: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ يَوْمٌ لا بَيْعٌ فِيهِ وَلا خُلَّةٌ وَلا شَفَاعَةٌ وَالْكَافِرُونَ هُمُ الظَّالِمُونَ
ترجمہ: اے ایمان والو! جو رزق ہم نے تمہیں عطا کیا ہے اس میں سے وہ دن آنے سے پہلے پہلے اللہ کی راہ میں خرچ کر لو جس دن نہ تو خرید و فروخت ہو گی نہ دوستی کام آئے گی اور نہ سفارش، اور ظالم تو وہی لوگ ہیں جو ان باتوں کے منکر ہیں ۔ [البقرۃ: 254]
یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی خلیل اللہ ابراہیم علیہ السلام کی شفاعت اپنے والد آزر کے حق میں قبول نہیں فرمائے گا، جیسے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے بیان کرتے ہیں کہ: (سیدنا ابراہیم علیہ السلام اپنے والد آزر سے قیامت کے دن جب ملیں گے تو ان کے ( والد کے ) چہرے پر سیاہی اور غبار چڑھا ہوا ہو گا ۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام انہیں مخاطب کر کے کہیں گے کہ : کیا میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ میری مخالفت نہ کیجئے ۔ آپ کے والد گویا ہوں گے کہ: کہ آج میں آپ کی مخالفت نہیں کروں گا۔ اس پر سیدنا ابراہیم علیہ السلام عرض کریں گے کہ اے رب ! تو نے وعدہ فرمایا تھا کہ تو مجھے قیامت کے دن رسوا نہیں کرے گا ۔ آج اس رسوائی سے بڑھ کر اور کون سی رسوائی ہو گی کہ میرے والد تیری رحمت سے سب سے زیادہ دور ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں نے جنت کافروں پر حرام قرار دی ہے ۔ پھر کہا جائے گا کہ اے ابراہیم ! تمہارے قدموں کے نیچے کیا چیز ہے ؟ وہ دیکھیں گے تو ایک نر لگڑ بگڑ مٹی کے کیچڑ میں لتھڑا ہوا ہو گا اور پھر اس کے پاؤں پکڑ کر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا ۔) اسے بخاری: (3350) نے روایت کیا ہے۔
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب