كيا باجماعت نماز تراويح بدعت شمار ہو گى كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور مبارك ميں ايسا نہ تھا، بلكہ سب سے پہلے اسے شروع كرنے والے عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ ہيں ؟
رمضان المبارك ميں باجماعت نماز تراويح سنت ہے بدعت نہيں
سوال: 21740
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
يہ كہنا كہ نماز تراويح بدعت ہے، سراسر غلط اور ناانصافى ہے، بلكہ يہ كہا جا سكتا ہے كہ:
كيا يہ عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ كى سنت ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور مبارك ميں ايسا نہيں تھا، بلكہ يہ عمر رضى اللہ تعالى عنہ كے دور ميں ہوا ہے، يا كہ يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا طريقہ اور سنت ہے ؟!
لہذا بعض لوگوں كا دعوى ہے كہ يہ عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ كا طريقہ اور سنت ہے، اور اس كى دليل يہ ديتے ہيں كہ:
عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ نے ابى بن كعب رضى اللہ تعالى عنہ اور تميم دارى رضى اللہ تعالى عنہ كو حكم ديا كہ وہ لوگوں كو گيارہ ركعات پڑھائيں، اور ايك رات عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ باہر نكلے تو لوگ نماز ادا كر رہے تھے، تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے:
" يہ بدعت اور طريقہ اچھا ہے"
يہ اس كى دليل ہے كہ اس سے قبل يہ مشروع نہ تھى …..
ليكن يہ قول ضعيف ہے، اور اس كا قائل صحيحين وغيرہ كى اس حديث سے غافل ہے كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے صحابہ كرام كو تين راتيں قيام كروايا اور چوتھى رات نماز نہ پڑھائى، اور فرمايا: مجھے خدشہ تھا كہ تم پر فرض نہ كر ديا جائے"
صحيح بخارى حديث نمبر ( 872 ).
اور مسلم شريف كے الفاظ يہ ہيں:
" ليكن مجھے يہ خوف ہوا كہ تم پر رات كى نماز فرض كر دى جائے اور تم اس كى ادائيگى سے عاجز آجاؤ"
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1271 ).
لہذا سنت نبويہ سے تراويح ثابت ہيں، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے تسلسل كے ساتھ جارى نہ ركھنے كا مانع ذكر كيا ہے نہ كہ اس كى مشروعيت كا، اور وہ مانع اور علت فرض ہو جانے كا خدشہ تھا، اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى وفات سے يہ خوف زائل ہو چكا ہے، كيونكہ جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم فوت ہو گئے تو وحى بھى منقطع ہو گئى اور اس كى فرضيت كا خدشہ بھى جاتا رہا، لہذا جب انقطاع وحى سے علت زائل اور ختم ہو چكى جو كہ فرضيت كا خدشہ اور خوف تھا، تو معلول كا زوال ثابت ہو گيا، توپھر اس وقت اس كا سنت ہونا واپس پلٹ آئے گا. اھـ
ديكھيں: الشرح الممتع لابن عثيمين ( 4 / 78 ).
اور صحيحين ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہ سے حديث مروى ہے وہ بيان كرتى ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم جو كام بھى كرنا پسند كرتے اور اسے صرف اس خدشہ سے ترك كر ديتے تھے كہ لوگ اس پر عمل شروع كردينگے اور يہ ان پر فرض كر ديا جائے گا…
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1060 ) صحيح مسلم صلاۃ المسافرين حديث نمبر ( 1174 ).
امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
اس ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا اپنى امت پر مكمل شفقت و مہربانى كا بيان پايا جاتا ہے. اھـ
لہذا يہ كہنا كہ نماز تروايح نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت نہيں بلا وجہ اورغلط ہے، بلكہ يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت ہے، صرف نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس خدشہ كے پيش نظر اسے ترك كيا تھا كہ كہيں يہ امت پر فرض نہ ہو جائے، اور جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم فوت ہو گئے تو يہ خدشہ جاتا رہا.
اور ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ مرتدين كے ساتھ لڑائى اور جنگ ميں مشغول رہے، اور پھر ان كى خلافت كا عرصہ بھى بہت ہى قليل ( دو برس ) ہے، اور جب عمر رضى اللہ تعالى عنہ كا دور آيا اور مسلمانوں كے معاملات درست ہو گئے تو لوگ رمضان المبارك ميں اسى طرح نماز تراويح كے ليے جمع ہو گئے جس طرح رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ جمع ہوئے تھے.
لہذا عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے جو كچھ كيا ہے وہ زيادہ سے زيادہ يہ ہے كہ انہوں اس سنت كا احياء كيا اور اسے كى طرف واپس گئے.
اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الشیخ محمد صالح المنجد