مجھے عاشوراء کے روزہ کی فضیلت کا علم ہے کہ اس سے گذشتہ ایک برس کے گناہ معاف ہوتےہیں ، لیکن ہمارے ہاں میلادی تاریخ رائج ہے جس وجہ سے مجھے عاشوراء کا علم صرف اسی دن ہوتا ہے ، تواگر میں نے اس دن کچھ بھی نہ کھایا ہواورروزہ کی نیت کرلوں توکیا میرا روزہ صحیح ہوگا ، اورکیا مجھے عاشوراء کے روزے کی فضیلت حاصل ہوجائے گی ؟
اگرعاشوراء کے روزہ کی دن میں نیت کرلی جائے تو کیاعاشوراء کا اجرملے گا
سوال: 21819
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اللہ وحدہ لاشریک کا شکر ہے جس نے آپ کو نوافل کی ادائيگی اور اطاعت کرنے میں آسانی پیدا فرمائي اوراس کا حریص بنایا ہم اللہ تعالی سے دعا گوہیں کہ وہ ہمیں اورآپ کواس پر ثابت قدم رکھے ۔
آپ نے روزہ کی نیت کے بارہ میں سوال کیا ہے کہ آیا رات کوہی کرنی چاہیے یا دن کوبھی کی جاسکتی ہے ہم اس کے بارہ میں گزارش کریں گے کہ نبی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے نفلی روزے کی نیت دن کو بھی کی تھی ۔
اس لیے اگرکوئي شخص فجر کےبعد کچھ بھی نہیں کھاتا تواس کے لیے نفلی روزہ کی نیت کرنی جائز ہے جیسا کہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھروالوں کے پاس تشریف لائے اورکہنے لگے کیا آپ کے پاس کچھ کھانے پینے کی چيز ہے ؟
توگھر والے کہنے لگے ہمارے پاس تو کچھ نہیں ہے ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھرمیرا روزہ ہے ۔
صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1154 – 170 )
حدیث میں لفظ ( اذن ) ظرف زمان ہے جس کا معنی یہ ہے کہ میں اس وقت روزہ سے ہوں ، جواس بات کی دلیل ہے کہ نفلی روزہ کی نیت دن کوبھی کی جاسکتی ہے ، لیکن فرضی روزہ کی نیت رات کوہی کرنی ہوگی کیونکہ حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( جوبھی فجر سے قبل روزے کی نیت نہیں کرتا اس کا روزہ ہی نہیں ) سنن ابوداود ( 2454 ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 726 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح الجامع ( 6535 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے اوراس حدیث میں فرضی روزہ مراد ہے ۔
لھذا اس بنا پرآپ کا روزہ صحیح ہے ، اب رہا مسئلہ یہ کہ آیا اس روزے کا پورے دن کا اجروثواب حاصل ہوگا یا کہ نیت کے وقت سے ؟
اس کے بارہ میں شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :
اس مسئلہ میں علماء کرام کے دو قول ہیں :
اول : اسے دن کے شروع سے ہی اجروثواب حاصل ہوگا کیونکہ شرعی روزہ تودن کے شروع سے ہوتا ہے ۔
دوم : اسے نیت کے وقت سے ثواب حاصل ہوگا ۔
اگر وہ زوال کے وقت نیت کرتا ہے تو اسے نصف دن کا اجر ملے گا ، اوریہی قول صحیح ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اورہرایک شخص کے لیے وہی ہے جس کی وہ نیت کرتا ہے ) ۔
اوراس شخص نے نیت تو دن میں کی ہے لھذا اس کا اجر بھی نیت کے وقت سے حاصل ہوگا ۔
لھذا راجح قول کی بنا پر اگر روزے کا اطلاق یوم پرہوتا ہے مثلا پیر ، جمعرات ، ایام بیض یعنی تیرہ چودہ اورپندرہ تاريخ کے روزے اور ہرمہینہ کے تین روزے وغیرہ کی نیت وہ دن کے وقت کرے تواسے اس دن کا ثواب حاصل نہیں ہو گا ۔ دیکھیں شرح الممتع ( 6 / 373 ) ۔
اورجوشخص عاشوراء کے روزے کی نیت فجر کے بعد کرے تواسے وہ فضیلت حاصل نہيں ہوگي جواحادیث میں بیان کی گئي ہے کہ اس سے ایک سال کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں کیونکہ اس پریہ صادق نہیں آتا کہ اس نے یوم عاشوراء کا روزہ رکھا ہے بلکہ اس نے تودن کا کچھ حصہ روزہ رکھا ہے جوکہ اس کی نیت کے وقت سے شروع ہوا تھا ۔
لیکن یہ ہے کہ اسے وہ عمومی اجروثواب حاصل ہوگا جومحرم کے مہینہ میں روزہ رکھنے کا حاصل ہوتا ہے کیونکہ رمضان المبارک کے مہینہ کے بعد افضل ترین روزے محرم کے ہی ہيں جیسا کہ مسلم شریف کی حدیث نمبر ( 1163 ) میں بیان کیا گيا ہے ۔
یوم عاشوراء اورایام بیض وغیرہ کے بارہ میں آپ اوراسی طرح دوسرے لوگوں کا بے علم ہونے کا سب سے بڑا سبب میلادی تاریخ کا رواج ہے ، جس کی بنا پر اس کاعلم اسی دن ہوتا ہے ، ہوسکتا ہے کہ شائد اس طرح کے فضائل کا حاصل نہ ہونا آپ اوردوسروں کے لیے طریق مستقیم پر چلنے اورتاریخ ھجری پر عمل کرنے کا باعث بنے جواللہ تعالی نے اپنے بندوں کے لیے مشروع کی ہے اوراسے اپنے دین کےلیےاختیار فرمایا ہے ۔
اگرچہ وہ تاریخ ھجری کواپنے خاص اعمال اورآپس میں معاملات تک ہی محدود رکھیں تاکہ تاریخ ھجری کا احیاء ہوسکے اورشرعی مناسبات ومحافل یادہانی اوراہل کتاب کی مخالفت بھی ہوسکے کیونکہ اہل کتاب کی مخالفت کرنے کا حکم بھی دیا گیا ہے ، اسی طرح ہماری اوران کی خصوصیات وشعائر میں تمیز بھی ہونی ضروری ہے اورخاص کر قمری تاریخ جوکہ پہلے انبیاء کی امتوں میں بھی رائج رہی ہے ، جیسا کہ یھودی یوم عاشوراء کا روزہ رکھا کرتے تھے اوراس کا علم قمری تاریخ سے ہی علم ہوتا ہے کیونکہ یہ وہ دن ہے جس میں اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام کونجات دی تھی ، تواس طرح یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قمری تاریخ تھی ہی رائج تھی نہ کہ شمسی تاریخ جوآج معروف ہے ۔
دیکھیں شرح الممتع ( 6 / 471 ) ۔
ہوسکتا ہے کہ اس طرح کے اجروثواب کے ضائع ہونے کی وجہ سے اللہ تعالی آپ اورآپ جیسے دوسروں کو خیروبھلائی کا حریص بنا دے ، وہ اس طرح کہ اس اجر وثواب کے ضائع ہونے کی وجہ سے دل میں جو احساسات پیدا ہوں گے وہ اس میں اعمال صالحہ کرنے کی جدوجھد پیدا کریں گے جس کی بنا پر کئي قسم کی اطاعت کرنے کی وجہ سے دل پر ایک اچھا اثر ہوگا ۔
اس کا اثر بعض اوقات کسی معین اطاعت سے بھی زيادہ ہوتا ہے جسے بعض لوگ کرتے ہیں اورپھر اس میں سستی وکاہلی کا شکار ہوتے اوربعض اوقات تو وہ اس کی وجہ سے غروروفخر کرنے لگتے اوراللہ تعالی پر احسان تک جتلانے سے بھی باز نہیں آتے ۔
ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ وہ ہمیں اپنے فضل وکرم سے اجروثواب عطا فرمائے اوراپنے ذکر و شکر کی توفیق عطا فرمائے ۔
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب