0 / 0
19,73313/01/2017

معین دنوں کے نفلی روزے کے لیے رات سے ہی نیت ضروری ہے

سوال: 218362

معین دنوں کے نفلی روزے کی نیت کب شروع کرے ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

مطلق نفلی روزے کے لیے رات سے ہی نیت کرنا ضرور ی نہیں ہے ،بلکہ دن  کے کسی وقت بھی نیت کر کے روزہ رکھ لے تو یہ اس کے لیے کافی ہے ،لیکن شرط یہ ہے کہ طلوع فجر سے روزہ توڑنے والا کوئی کام نہ کیا ہو ۔

جبکہ معین دنوں کا نفلی روزہ رکھنے کیلیے رات کے وقت میں طلوع فجر سے قبل نیت کرنا ضروری ہے ۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا:
"کیا شوال کے چھ روزے اور عرفہ کے روزے کے لیے فرض روزے والا حکم ہو گا لہذا رات سے ہی نیت کرنا ضروری ہو گی یا کہ اس کا حکم نفل روزے والا ہو گا کہ اس کے لیے نیت دن کے وقت کر لی جائے ؟کیا دن کے وقت روزہ رکھنے والے کا اجر بھی اس شخص جیسا ہو گا جس نے سحری کی اور سارا دن روزے سے رہا ؟
انہوں نے جواب دیا:
"جی ہاں !نفلی روزے کی نیت دن کے وقت بھی کی جاسکتی ہے ،لیکن شرط یہ ہے کہ اس سے پہلے اس نے خلاف روزہ کو ئی کام نہ کیا ہو مثلاً:  اگر کسی نے طلوع فجر کے بعد کھانا کھایا اور دن کے وقت روزے کی نیت کر لی ۔تو ہم کہیں گے تمہارا روزہ درست نہیں ہے ؛کیونکہ اس نے کھا لیا ہے لیکن اگر اس نے طلوع فجر سے کچھ کھایا اور نہ ہی روزہ توڑنے والا کوئی کام کیا ،پھر دن کے وقت نفلی روزے کی نیت کر لی تو یہ جائز ہے؛ اس لیے کہ ایسا کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ۔

لیکن اجر نیت کے وقت سے ہی شروع ہوگا ؛کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  (اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے ) چنانچہ نیت کے بعد سے ہی اجر لکھا جائے گا ، نیت سے قبل کوئی اجر نہیں لکھا جائے  گا ۔

چونکہ اجر دن میں روزہ رکھنے پر مرتب ہوتا ہے اور اس نے مکمل دن روزہ ہی نہیں رکھا بلکہ دن کے  بعض حصے میں روزے کی نیت کی ہے ،اسی لیے اگر کسی شخص نے طلوع فجر سے کچھ نہیں کھایا اور دن کے وقت شوال کے چھ روزوں  میں سے ایک کی نیت کی اور اس کے بعد پانچ روزے رکھے تو اس کے ساڑھے پانچ روزے ہوئے ،اور اگر اس نے چوتھا حصہ گزر جانے کے بعد نیت کی تھی تو اس کے پونے چھ روزے ہوئے ؛کیونکہ اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے ۔اور حدیث میں ہے: (جس نے رمضان کے روزے رکھے اور اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے )

چنانچہ ہم اپنے اس بھائی کو کہیں گے کہ آپ نے چھ روزوں کا ثواب حاصل نہیں کیا ؛کیونکہ آپ نے چھ روزے نہیں رکھے ،اسی طرح عرفہ کے روزے کے بارے میں کہا جائے گا ،البتہ اگر مطلق نفلی روزہ ہو تا تو درست ہوتا اور صرف نیت کے وقت سے ہی ثواب ملتا " انتہی
 لقاء الباب المفتوح (55/ 21)  مکتبہ شاملہ کی ترتیب کے مطابق

اور مزید ایک جگہ پر کہتے ہیں:
"اگر روزے کی فضیلت دن کے ساتھ معلق ہو مثلاً: سوموار ،جمعرات ،اور ہر مہینے تین روزے ،اور ان کیلیے دن کے وقت  انسان روزے کی نیت کرے تو اسے اس [مکمل ]دن کا ثواب نہیں ملے گا ۔مثلاً:  اس نے سوموار کا روزہ رکھا اور اس کیلیے دن کے وقت نیت کی  ،اسے اس شخص جیسا ثواب نہیں ملے گا جس نے دن کی ابتدا سے ہی روزے کی نیت کی ہوئی تھی؛ کیونکہ اسے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس نے [پورے ]سوموار [کے دن ]کا روزہ رکھا ۔اسی طرح اگر صبح کے وقت اس کا روزہ نہیں تھا ،لیکن اسے بتایا گیا کہ آ ج ایام بیض کا پہلا دن تیرہ تاریخ ہے اور اس نے کہا کہ : "اچھا! تو میں روزے سے ہوں " اسے [مکمل ]ایام بیض کا ثواب نہیں ملے گا کیونکہ اس نے مکمل دن کا روزہ نہیں رکھا ۔انتہی
الشرح الممتع  (6/ 360)

مزید کے لیے سوال نمبر (21819) کا جواب ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android