سوال: آپ جنید بغدادی کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟ اور کیا آپ گمراہ صوفی تھے؟
جنید بغدادی رحمہ اللہ کے مختصر حالات زندگی
سوال: 219396
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
اہل تصوف کے ابتدائی مشایخ مجموعی طور پر قابل ستائش ہیں، انکی سنت نبوی اور اتباعِ سلف کیلئے تمنا دیدنی تھی، انکے نیک کارنامے مدح سرائی کا حق رکھتے ہیں، لیکن بعد میں آنے والے صوفیوں نے تحریف کی، بدعات کو جنم دیا ، اور شرعی احکام سےکنارہ کشی کی۔ ابتدائی صوفیاء کرام اہل علم کے ساتھ گھل مل کر بیٹھتے، اور ان سے علم حاصل کرتے تھے، جس کی وجہ سے وہ سیدھے راستے پر قائم اور عمل صالح پر کاربند رہے، اور مجموعی طور پر متبع سنت بھی تھے، اگرچہ پہلے صوفیاء کرام کے بھی زہد، قلبی عبادات ، اور خلوت پسندی کیلئے مخصوص طور طریقے تھے ، مزید برآں ضعیف احادیث پر عمل کیساتھ دیگر اور امور بھی بجا لاتے تھے، یہ سب امور صوفیاء کرام کا شیوہ رہا ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“صوفیائے کرام کے یہ مشایخ بنیادی نظریات میں “اہل السنہ و الجماعہ” کے نظریات سے باہر نہیں نکلے، بلکہ یہ لوگ اہل سنت کے نظریات کی ترویج کیلئے کوشاں تھے، لوگوں کو انہی عقائد کی دعوت دیتے، اور ان عقائد سے متصادم عقائد کو ترک کرنے پر ترغیب دلاتے تھے، ساتھ میں یہ لوگ دیندار، نیکو کار بھی تھے، اللہ تعالی نے اسی وجہ سے انکی شان میں اضافہ فرمایا، اور انہیں بلند مرتبہ عطا کیا، چنانچہ ان کے بنیادی عقائد عام طور پر اچھے تھے، تاہم انکی یا ان جیسے لوگوں میں ایسے مسائل کا پایا جانا لازمی بات ہے جو کہ راجح نہیں ہیں، مثلاً: ضعیف احادیث، قیاسِ فاسد وغیرہ، اس کے علاوہ اور بھی بہت سی غیر راجح باتیں ہیں جو اہل بصیرت جانتے ہیں؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ ہر شخص کی بات کو مانا بھی جاسکتا ہے، اور مستر دبھی کیا جاسکتا ہے” انتہی
“مجموع الفتاوى” (3/ 377)
دوم:
جنید بن محمد رحمہ اللہ، صوفیائے کرام کے سربراہ اور اس میدان کے شاہسواروں میں شامل ہیں، نہایت عبادت گزار، زاہد، اور اللہ تعالی کے ساتھ تعلق رکھنے والے تھے، مجموعی طور پر سلف صالحین کے منہج پر تھے، کتاب و سنت کی تعظیم آپکا شیوہ تھا، ساتھ میں بدعات اور خود ساختہ اعمال سے منع بھی کرتے تھے۔
آپکا نام: جنید بن محمد بن جنید ہے، ابو القاسم آپکی کنیت ہے، اور پارچہ فروشی کے باعث آپکا لقب : “خزاز ” تھا، آپکے والد شیشے کا روبار کرتے تھےاس نسبت سے آپ کو قواریری بھی کہا جاتا ہے ، آپکا آبائی علاقہ نہاوند ہے، لیکن آپکی پیدائش و پرورش بغداد میں ہوئی۔
خطیب بغدادی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“انہوں نے بغداد میں رہتے ہوئے سماعِ حدیث کیا، علمائے کرام سے ملاقاتیں کی، ابو ثور رحمہ اللہ سے فقہ پڑھی، متعدد نیک لوگوں کی صحبت اختیار کی جن میں حارث محاسبی، اور سری سقطی شامل ہیں۔
اس کے بعد عبادت گزاری میں مشغول ہوگئے، اور اسی کو اپنا مشغلہ بنا لیا، اور بہت شہرت پائی، یہاں تک کہ علم الاحوال اور وعظ کیلئے اپنے وقت کے یگانہ روزگارشیخ بن گئے۔
آپکے واقعات بہت مشہور ہیں، انہوں نے حدیث حسن بن عرفہ کے واسطے سے بیان کی ” انتہی
“تاريخ بغداد” (8/ 168)
امام ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“صوفیائے کرام کےشیخ ہیں، آپکی پیدائش 220 ہجری کے کچھ ہی بعد ہوئی، انہوں نے ابو ثور سے فقہ حاصل کی، سری سقطی اور حسن بن عرفہ سے حدیث کا سماع کیا، اور پھر سری سقطی سمیت حارث محاسبی اور ابو حمزہ بغدادی کی صحبت اختیار کی، خوب اچھی طرح علم حاصل کیا، اور پھر عبادت گزاری میں مصروف ہوگئے، آپ نے بہت کم احادیث بیان کی ۔
آپ سے احادیث بیان کرنے میں : جعفر خلدی، ابو محمد جریری، ابو بکر شبلی، محمد بن علی بن حبیش، اور عبد الواحد بن علوان کے نام سرِفہرست ہیں” انتہی
“سير أعلام النبلاء” (11/ 43)
اہل علم نے جنید بغدادی کے بارے میں اچھے الفاظ استعمال کیے ہیں:
-الحافظ ابو نعیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“جنید رحمہ اللہ ان لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے شرعی علم کو مضبوط بنایا” انتہی
“حلية الأولياء” (13/ 281)
-شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“جنید بغدادی کتاب و سنت کے شیدائی تھے آپ اہل معرفت میں سے ہیں” انتہی
“مجموع الفتاوى” (5/ 126)
-ایک اور جگہ آپ کہتے ہیں:
“جنید رحمہ اللہ [صوفی] گروہ کے سربراہ، اور رہنمائی کرنے والے ائمہ میں سے ہیں” انتہی
“مجموع الفتاوى” (5/ 491)
-حافظ ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“آپ اپنے زمانے کے شیخ العارفین، اور صوفیاء کیلئے نمونہ تھے، اپنے وقت کے نامور ولی تھے، اللہ تعالی کی آپ پر رحمتیں نازل ہوں” انتہی
“تاريخ الإسلام” (22/ 72)
-احمد بن جعفر بن منادی اپنی کتاب: “تاریخ الاسلام” میں کہتے ہیں:
“بہت سے لوگوں سے علم حدیث حاصل کیا، اہل معرفت اور نیک لوگوں کو دیکھا، اور متعدد علوم و فنون میں خوب مہارت اور حاضر جوابی سے اللہ نے نوازا، کہ ان کے کسی ہم عصر یا ان سے عمر رسیدہ شخص میں اُس وقت یہ صلاحیت کم ہی نظر آتی تھی، دنیا اور دنیا داروں سے بالکل الگ تھلگ رہتے تھے۔
مجھے کسی نے بتلایا کہ جنید نے اپنے بارے میں ایک دن کہا: “میں ابو ثور کلبی کی مجلس میں فتوی دیا کرتا تھا، اور اس وقت میری عمر 20 سال تھی”
علی بن ہارون اور محمد بن احمد بن یعقوب کہتے ہیں: ہم نے جنید بغدادی رحمہ اللہ کو کئی بار یہ کہتے ہوئے سنا: “ہمارا علم کتاب و سنت کے ذریعے مضبوط ہے، جس شخص کو قرآن یاد نہ ہواور وہ حدیث لکھتا ہو ، لیکن اس میں تفقہ نہ رکھے ، تو اس کی اقتدا نہیں کی جاسکتی” انتہی
“تاريخ الإسلام” (22/ 73)
-حامد بن ابراہیم کہتے ہیں:
“جنید بن محمد کہتے تھے: “راہِ الہی ساری مخلوقات کیلئے بند ہے، صرف انہی لوگوں کیلئے کھلی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو اپناتے ہیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع کرتے ہیں، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ( لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ)[بیشک تمہارے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بہترین نمونہ میں ہے]” انتہی
“تلبیس إبلیس” (ص 12)
-جس وقت ان کی موت کا وقت آیا تو قرآن مجید کی تلاوت کرنے لگے، تو انہیں کسی نے کہا: آپ تھوڑا آرام کر لیتے!، تو انہوں نے کہا: “اس وقت مجھ سے بڑھ کر کسی کو قرآن کی ضرورت نہیں ہے، یہ وہ لمحہ ہے جس لمحے میں میرا صحیفہ بند کر دیا جائے گا” انتہی
“البداية والنهاية” (14/ 768)
مزید کیلئے سوال نمبر: (145905) اور (201911) کا مطالعہ کریں۔
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات