كيا آل بيت ( اہل بيت ) كو زكاۃ دينى جائز ہے ؟
آل بيت كو زكاۃ دينے كا حكم
سوال: 21981
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
بنو عبد المطلب اور ان كى موالى كو آل بيت كہا جاتا ہے( اور وہ عبد المطلب كے بيٹوں كى آل كو كہا جاتا ہے جو كہ آل على، آل عباس، آل جعفر، آل حارث ہيں ).
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 1 / 100 ) الشرح الممتع ( 6 / 258 ).
اور آل بيت كو زكاۃ دينا جائز نہيں ہے، كيونكہ آل بيت كے ليے زكاۃ كے حرام ہونے كے دلائل وارد ہيں، ان ميں سے ايك دليل امام مسلم رحمہ اللہ تعالى كى مندرجہ ذيل حديث ہے:
عبد المطلب بن ربيعہ بن حارث رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" صدقہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم كى آل كے شان شايان نہيں، يہ تو لوگوں كى ميل كچيل ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر كتاب الزكاۃ ( 1784 ).
امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
قولہ: " يقينا صدقہ آل محمد صلى اللہ عليہ وسلم كى آل كے شايان شان نہيں ہے"
يہ اس كى دليل ہے كہ يہ صدقہ ان كے ليے حرام ہے، چاہے وہ كام كى بنا پر ہو يا فقر و مسكينى يا آٹھ اسباب وغيرہ كے باعث، ہمارے اصحاب كے ہاں يہى صحيح ہے.
قولہ: " يہ تو لوگوں كى ميل كچيل ہے "
يہ اس كى حرمت كى علت پر تنبيہ ہے، كہ وہ اپنى عزت و تكريم كى بنا پر ميل كچيل سے پاك ہيں، اور ( لوگوں كى ميل كچيل ) كا معنى يہ ہے كہ يہ ان كے اموال اور نفسوں كى پاكيزگى كا باعث ہے، جيسا كہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
ان كے اموال سے آپ صدقہ وصول كريں اس سے آپ انہيں پاك صاف كرينگے .
تو يہ دوھونے كى ميل كچيل كى طرح ہے.
اور آل بيت كے ليے زكاۃ كى حرمت كا حكم صرف اس ليے ہے كہ ان كے ليے كچھ ايسے دوسرے مصادر ہيں جن كى بنا پر آل بيت كے محتاج افراد كو مال ديا جا سكتا ہے، ان ميں غنيمت كا خمس يعنى پانچواں حصہ، اور لوگوں كے تحفے اور ہديہ جات وغيرہ شامل ہيں.
اور اگر ان سے يہ مصادر ختم ہو جائيں، اور آل بيت كے بعض لوگ مال كے محتاج ہوں اور زكاۃ كے علاوہ كوئى مال نہ ہو تو اس كے ليے جائز ہے بلكہ ان كے ليے زكاۃ دينا واجب ہے، كيونكہ ہمارے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى وصيت كى بنا پر وہ دوسرے سے زيادہ اولى ہيں، يہ بعض سلف كى رائے ہے، اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے اسى كو راجح قرار ديا ہے، اور شيخ محمد صالح عثيمين رحمہ اللہ تعالى نے بھى اس كى موافقت كى ہے.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى كا كہنا ہے:
اور جب بنو ہاشم كو خمس سے منع كر ديا جائے تو ان كے ليے زكاۃ لينى جائز ہے، ہمارے اصحاب ميں سے قاضى يعقوب وغيرہ كا قول يہى ہے، اور ابو يوسف، اور شافعيہ سے اصطخرى كا بھى يہى كہنا ہے كيونكہ يہ ضرورت اور حاجت كى بنا پر ہے.
ديكھيں: مجموع الفتاوى الكبرى ( 5 / 374 ).
اور شيخ محمد صالح بن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كا كہنا ہے:
جب انہيں منع كر ديا جائے اور وہ زكاۃ كے علاوہ كچھ نہ پائيں جيسا كہ ہمارے اس دور ميں حالت ہے: تو جب وہ فقراء ہوں اور ان كے پاس كوئى كام نہ ہو تو ان كى ضرورت پورا كرنے كے ليے انہيں زكاۃ دى جائے گى، شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى نے يہى اختيار كيا ہے، اور صحيح بھى يہى ہے.
ديكھيں: الشرح الممتع ( 6 / 257 ).
اور مزيد تفصيل كے ليے كتاب: فتاوى اسلاميۃ ( 2 / 90 ) اور فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 10 / 68 ) كا مطالعہ ضرور كريں.
اللہ تعالى ہى زيادہ علم ركھنے والا ہے، اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الشیخ محمد صالح المنجد