سوال: فرض نماز کے سجدے کے علاوہ کوئی اور سجدہ کرتے ہوئے کیا عورت کا سر ڈھکا ہونا ضروری ہے؟.
فرض نماز کے علاوہ میں سجدہ کرتے ہوئے عورت کا سر ڈھکا ہونا ضروری ہے؟
سوال: 220213
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
نماز میں عورت کیلئے اپنے سر کے بال ڈھانپنا لازمی ہے، اور ان کی نماز اس کے بغیر درست بھی نہیں ہوگی؛ اسکی دلیل وہ حدیث ہے جسے ابو داود: (641)،اور ترمذی: (377) نے نقل کیا ہے، اور ترمذی نے اسے حسن بھی کہا ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتی ہیں کہ : (اللہ تعالی کسی بھی حائضہ عورت کی نماز اوڑھنی کے بغیر قبول نہیں فرماتا) اس حدیث کو البانی نے “صحیح ابو داود” (3/206) میں صحیح کہا ہے۔
صنعانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“حدیث میں حائضہ سے مراد بالغہ ہے، چاہے اس کی بلوغت احتلام سے معلوم ہو، اور حدیث میں حیض کے ذریعے تعبیر اس لئے فرمائی کہ عام طور پر علامتِ بلوغت یہی ہوتی ہے”انتہی
“سبل السلام” (1/ 197)
ترمذی رحمہ اللہ اس حدیث کے بعد کہتے ہیں:
“اہل علم کے ہاں اسی حدیث پر عمل ہے کہ جب کسی خاتون کو علم ہو کہ اسکے سر کے کچھ بال ظاہر ہو رہے ہیں تو اسکی نماز درست نہیں ہے” سنن ترمذی: (1/487) تحقیق بشار عواد ۔
ابن منذر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اہل علم کا بالغ آزاد عورت کے بارے میں اجماع ہے کہ : وہ نماز پڑھتے ہوئے سر کو ڈھانپے گی، اور اگر نماز پڑھتے ہوئے اسکا مکمل سر ننگا ہوا تو اسکی نماز فاسد ہوگی، اور اسے دوبارہ نماز ادا کرنی ہوگی”انتہی
“الأوسط” (5/ 69)
تاہم شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے یہ موقف اپنایا ہے کہ: نماز میں عورت کے تھوڑے بہت بالوں کا نظر آنا معاف ہے، زیادہ نظر آئیں تو معاف نہیں ہے، چنانچہ اس بارے میں ان سے جب پوچھا گیا کہ: اگر نماز میں عورت کے کچھ بال نظر آرہے ہوں تو کیا اس کی نماز باطل ہو گی یا نہیں؟
تو انہوں نے جواب دیا:
“اگر عورت کے جسم اور بالوں میں سے تھوڑا بہت نظر آرہا ہو تو اکثر علمائے کرام کے ہاں اس پر نماز دوبارہ پڑھنا ضروری نہیں ہے، یہی موقف ابو حنیفہ، اور احمد کا ہے، اور اگر زیادہ مقدار میں اس کا جسم اور بال نظر آرہے ہوں تو وقت کے اندر اندر علم ہونے پر تمام ائمہ اربعہ وغیرہ کے نزدیک نماز لوٹائے گی، واللہ اعلم”انتہی
“مجموع الفتاوى” (22/ 123)
دوم:
یہ حکم بلا تفریق فرض اور نفل دونوں نمازوں کیلئے ہے، کیونکہ فرق روا رکھنے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
“بنیادی طور پر اصول یہ ہے کہ جو نفل میں ثابت ہے، وہ فرض میں بھی ثابت ہے، الّا کہ کوئی دلیل اس کے برعکس مل جائے۔
اس اصول کی دلیل یہ ہے کہ: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر ادا کرنے کی کیفیت بیان کی تو کہا: “آپ اپنی سواری پر وتر پڑھا کرتے تھے، اور ساتھ میں یہ بھی کہا مگر فرض نماز سواری پر نہیں پڑھتے تھے”متفق علیہ، چنانچہ جس وقت صحابہ کرام نے یہ کہا کہ: ” آپ اپنی سواری پر وتر پڑھا کرتے تھے ، لیکن سواری پر فرض نماز نہیں پڑھتے تھے ” تو معلوم ہوا کہ : جو کچھ نفل نماز میں ثابت ہے، وہی فرض میں بھی ثابت ہے” انتہی
” الشرح الممتع على زاد المستقنع ” (3/ 73)
کسی بھی اہل علم نے فرض اور نفل نماز میں فرق بیان نہیں کیا، بلکہ اس اجماع کا تقاضا یہی ہے کہ تمام نمازوں کا ایک ہی حکم ہے۔
سوم:
اب سوال یہ ہے کہ کیا سجدہ شکر، اور سجدہ تلاوت کا حکم نفل نماز والا ہوگا اس طور پر کہ ان میں طہارت، سترپوشی، اور دیگر احکامات ہوں گے یا نفل نمازکا حکم نہیں ہوگا؟
اس کے متعلق اہل علم میں دو آراء پائی جاتی ہیں، اگرچہ افضل اور محتاط رائے یہی ہے کہ اگر استطاعت ہو تو ان میں نماز کی شرائط کا خیال رکھا جائے، کیونکہ اس مسئلہ میں اختلاف ٹھوس بنیادوں پر قائم ہے، یہی وجہ ہے کہ ابن قدامہ رحمہ اللہ نے یہاں تک کہہ دیا کہ:
“سجدہ [سہو یا تلاوت] کیلئے بھی وہی شرائط ہونگی جو نفل نما زکیلئے ہیں، یعنی : حدث اکبر و اصغر سے طہارت، ستر پوشی، قبلہ رخ، اور نیت۔اور اس مسئلہ میں ہم عثمان بن عفان رضی ا للہ عنہ کے سوا کسی کا اختلاف نہیں جانتے، ان سے ایک حائضہ عورت کے بارے میں مروی ہے ، فرماتے ہیں کہ جب اسے سجدہ کی آیت سنائی دے تو اپنے سر کے اشارے سے سجدہ کرے” (تابعین میں سے )اسی موقف کے سعید بن مسیب قائل ہیں اور وہ کہا کرتے تھے: “یا اللہ! میں نے تیرے لئے سجدہ کیا”، اور شعبی رحمہ اللہ سے بے وضو حالت میں آیت سجدہ سننے والے کے بارے میں منقول ہے کہ “جہاں کہیں بھی چہرہ ہو سجدہ کر لے”انتہی
“المغنی” (1/444)
مزید کیلئے : “المجموع شرح المهذب” للنووی (4/63) ، “الموسوعة الفقهیۃ الكويتیۃ” (24/214-215)
کچھ اہل علم نے بھی یہ موقف اپنایا ہے کہ سجدہ تلاوت نماز نہیں ہے، اس لئے نماز کیلئے لگائی جانے والی شرائط یعنی: طہارت، ستر پوشی، اور قبلہ رخ ہونا، سجدہ تلاوت کیلئے نہیں لگائی جائیں گی۔
اس بارے میں شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“صحیح بات یہی ہے کہ سجدہ شکر کیلئے طہارت کی شرط نہیں ہے، بلکہ اسکا حکم سجدہ تلاوت والا ہی ہے، چنانچہ وضو کے بغیر سجدہ تلاوت کرنے میں کوئی مانع نہیں ہے، اسی طرح سجدہ شکر کیلئے بھی وضو شرط نہیں ہے، لہذا سجدہ شکر وضو کے بغیر بھی کیا جا سکتا ہے؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ سجدہ نماز نہیں ہے، بلکہ ذکرِ الہی کی ایک قسم ہے جس میں اللہ کیلئے خضوع و انکساری کا اظہار ہوتا ہے، لہذا یہ تسبیح[سبحان اللہ کہنا]، تہلیل[لا الہ الا اللہ کہنا]، اور تلاوت قرآن کی طرح ہے” انتہی مختصرا
“فتاوى نور على الدرب” (10/ 463-464)
اسی موقف کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے، اور اس کے بارے میں شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں: “یہی موقف درست ہے” دیکھیں: “الشرح الممتع” (4/89-90)
مزید کیلئے آپ سوال نمبر : (4908) کا مطالعہ بھی کریں۔
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات