اپنے دادا اور دادی کی دولت اپنی جوانی کے ایام میں چوری کرتا رہا ہے، اب اس نے توبہ کر لی ہے، وہ اپنی توبہ کی تکمیل کے لئے چوری شدہ مال اصل مالکان تک پہنچانے کا آغاز کر چکا ہے، تو کیا دادا اور دادی کی وفات کے بعد چوری شدہ مال کو صدقہ کر سکتا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ وارثوں تک پہنچنا بہت مشکل ہے اور ان کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے، نیز اس علاقے میں غریبوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے، اس کا ماننا ہے کہ صدقہ کرنے سے فوت شدہ دادا اور دادی کو اجر مل جائے گا!
چوری سے توبہ؛ چوری شدہ مال اصل مالکان یا وفات کی صورت میں وارثوں تک پہنچانے سے ہی ہوگی۔
سوال: 220949
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
حقوق العباد سے متعلقہ توبہ کے لئے شرط یہ ہے کہ: غصب شدہ مال حقیقی مالکان کو واپس کیا جائے یا مالکان معاف کر دیں؛ اس کی دلیل صحیح بخاری: (2449) میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جس کسی نے اپنے بھائی کی عزت یا کسی اور چیز پر ظلم کیا ہو وہ اس سے آج ہی معاف کرالے پہلے اس سے کہ وہ دن آئے جس میں درہم و دینار نہیں ہوں گے، پھر اگر ظالم کا کوئی نیک عمل ہوگا تو اس کے ظلم کی مقدار کے برابر اس سے لے لیا جائے گا۔ اگر اس کی نیکیاں نہ ہوئیں تو مظلوم کے گناہ ظالم کے کھاتے میں ڈال دیے جائیں گے)
جب کوئی کسی دوسرے کا مال چوری کرے اور چور کے لئے اب یہ بتلانا مشکل ہو، یا بتلانے پر معاملہ مزید بگڑنے کا خدشہ ہو، مثال کے طور پر: قطع تعلقی ہو جائے ، تو پھر چوری کرنے والے پر بتلانا ضروری نہیں ہے؛ بلکہ کسی بھی ممکنہ طریقے سے اس تک مال پہنچا دے، مثلاً: اس کے اکاؤنٹ میں جمع کروا دے، یا کسی ایسے شخص کو تھما دے جو اس تک پہنچا دے، یا اسی طرح کا کوئی طریقہ کار اختیار کر لے۔
دوم:
سائل پر لازمی ہے کہ مسروقہ مال دادا اور دادی کے ورثا تک پہنچائے، اگرچہ یہ مشکل ہے لیکن ممکنات میں سے ہے۔
یہاں واضح رہے کہ اگر مسروقہ مال کو واپس پہنچانا ممکن تو ہو لیکن اس میں مشکل ہو یا مسروقہ مال پہنچانا ناممکن ہو تو ان دونوں میں فرق ہے؛ لہذا جب مال واپس پہنچانا ممکن ہو تو اصل مالکان تک مال پہنچانا واجب ہے کیونکہ وہ اس کے حقدار ہیں، وہی اس مال کو جہاں چاہیں خرچ کر سکتے ہیں، کسی کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ ان کے مال کو صدقہ میں دے دے اور انہیں علم ہی نہ ہو، چاہے آپ کے علاقے میں غریبوں کی تعداد کتنی ہی زیادہ ہو، غریبوں کی کثرت سے یہ جائز نہیں ہو جاتا کہ انسان کسی دوسرے کا مال ان غریبوں کو صدقے میں دے دے، ہاں وہ اپنا مال جیسے چاہے غریبوں میں تقسیم کرے۔
چنانچہ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جب تک مال کے مالکان کا علم ہے انہیں پہنچانا لازمی اور ضروری ہے، یا اگر مالکان کے ورثا معلوم ہوں تو انہیں پہنچانا ضروری ہے؛ لیکن اگر آپ مالکان بھول چکے ہیں یا آپ کو ان کا علم ہی نہیں ہے، یا آپ ان کے دنیا میں پائے جانے کے متعلق مایوس ہو چکے ہیں، انہیں تلاش کرنا ممکن نہیں تو پھر آپ ان کی طرف سے صدقہ کر سکتے ہیں۔
لیکن اگر مالکان کا علم ہے یا مالکان فوت ہو چکے ہیں تاہم ان کے ورثا معلوم ہیں تو ایسے میں انسان کے لئے بڑی پیچیدہ صورت بن جاتی ہے کہ انسان ان کے پاس جائے اور کہے: یہ پیسے میں نے تمہارے ہڑپ کیے تھے، اب تم مجھ سے یہ لے لو اور میری طرف سے توبہ بھی قبول کریں، تو یہ ممکن ہے کہ مشکل ہو جائے، پھر ایسا بھی ممکن ہے کہ شیطان ان کے دلوں میں یہ ڈال دے کہ اس نے تو اس سے بھی زیادہ مال ہڑپ کیا تھا؛ تو ایسی صورت میں آپ کسی معتمد آدمی کو دیکھیں جو عقل مند بھی ہو اور دیندار بھی ہو، آپ اسے کہیں: بھائی معاملے کی تفصیل اس اس طرح ہے، فلاں کے اتنے دینے ہیں اگر وہ فوت ہو گیا ہے تو اس کے وارثوں کو اتنے دینے ہیں، تو امید ہے کہ وہ شخص ان شاء اللہ آپ کو اس ادائیگی سے بری الذمہ ہونے میں مدد دے گا، وہ شخص اصل مالکان سے رابطہ کرے اور کہے: یہ شریف آدمی اب تائب ہو گیا ہے اور اس نے تمہارا اتنا مال ہڑپ کیا تھا، اب تم یہ مال لے لو، تو اس طرح وہ بری الذمہ ہو جائے گا۔ اس سارے عمل کی وجہ یہ ہے کہ جس مال کے مالکان کا علم ہو تو مال اصل مالکان تک پہنچانا ضروری ہے۔" ختم شد
" اللقاء الشهري " رقم (31)
مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (148902) کا جواب ملاحظہ کریں۔
انسان مقدور بھر اللہ تعالی سے ڈرے اور حقوق ادا کرنے کی مکمل کوشش کرے تو اللہ تعالی اس کے لئے آسانیاں بھی پیدا فرما دیتے ہیں، کوئی کتنا ہی مشکل اور کٹھن معاملہ کیوں نہ ہو اللہ تعالی مدد فرماتا ہے۔
سائل کا یہ کہنا کہ: " صدقہ کرنے سے فوت شدہ دادا اور دادی کو اجر مل جائے گا!"
تو اس کے بارے میں عرض یہ ہے کہ مال اب دادا اور دادی کی ملکیت ہی نہیں رہا، بلکہ یہ مال اب وارثوں کی ملکیت ہے۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات