سوال: گزشتہ سال مجھے صحت کے مسائل در پیش تھے اور ان کی وجہ سے میرا کافی وزن کم ہو گیا ہے، نیز اسی بیماری کی وجہ سے ڈاکٹر کی نصیحت کے مطابق میں پورا ماہ رمضان روزہ نہیں رکھ سکی، اب اس سال مجھے ان مسائل سے چھٹکارا مل گیا ہے لیکن پھر بھی میرا وزن معمول سے کم ہے، چنانچہ اس سال بھی مجھے میرے والدین اور قریبی دوستوں نے روزے نہ رکھنے کا مشورہ دیا ہے، میں نے ان سے بات چیت بھی کی ہے بلکہ مباحثہ بھی ہوا ؛ کیونکہ میں یہ سمجھتی ہوں کہ میں اس وقت تندرست ہوں اور میں روزے رکھ سکتی ہوں، اس پر میری والدہ نے ہمارے علاقے کی مسجد کے امام سے فون پر بات کی اور انہیں میری ساری تفصیل بتلائی ، تو امام صاحب نے کہا کہ اگر میرا وزن معمول کے مطابق نہیں ہے اس سے کم ہے تو پھر میرے لیے روزہ رکھنا مناسب نہیں ہے، تو کیا اب میں ان کی نصیحت پر عمل کروں اور جب مکمل صحت یاب ہو جاؤں تو ان روزوں کی قضا دے دوں؟ یا کچھ بھی ہو جائے میں روزے رکھ لوں؟
سابقہ بیماری کی وجہ سے وزن بہت زیادہ کم ہو گیا ہے تو کیا اس کیلیے روزے نہ رکھنے کی اجازت ہے؟
سوال: 221210
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ آپ کو مکمل شفائے کاملہ عاجلہ نصیب فرمائے۔
جس معالج نے آپ کا علاج کیا ہے آپ اس بارے میں انہی سے رجوع کریں:
اگر وہ اس بات کی تائید کر دیں کہ آپ روزہ رکھ سکتی ہیں اور اس سے آپ کی صحت پر اثر نہیں پڑے گا ، تو اس طرح ان شاء اللہ آپ اور آپ کے والدین مطمئن ہو جائیں گے، چنانچہ آپ اللہ تعالی کی مدد سے روزے رکھنے شروع کر دیں۔
اور اگر معالج کا مشورہ یہ ہو کہ روزوں کی وجہ سے مشقت کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس سے آپ کو صحت کے مسائل سے بھی دوچار ہونا پڑے گا تو پھر بہتر یہی ہے کہ آپ روزہ مت رکھیں، اور مکمل شفا یاب ہونے کے بعد رمضان کے روزوں کی قضا دے دیں۔
امام دردیر مالکی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اگر روزے کی وجہ سے ماہر معالج کے مطابق بیماری زیادہ ہونے کا خدشہ ہو ، یا بیماری سے مکمل شفا یابی میں تاخیر کا امکان ہو ، یا مریض روزہ رکھنے کی وجہ سے نقاہت محسوس کرے تو روزہ نہ رکھے” انتہی
” الشرح الكبير مع حاشية الدسوقي ” (1/535)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“بیماری کی وجہ سے روزہ نہ رکھنے کی رخصت اس صورت میں ہے جب روزے کی وجہ سے بیماری میں اضافے ، یا شفایابی میں تاخیر کا خدشہ ہو، چنانچہ اگر بیماری میں اضافہ یا شفایابی میں تاخیر یا نقاہت اور مشقت ہو تو مریض روزہ مت رکھے۔
اور جن بیماریوں کی وجہ سے روزے پر کوئی اثر نہیں پڑتا مثلاً: دانت درد، انگلی میں درد وغیرہ تو اس سے روزہ چھوڑنا جائز نہیں ہے بشرطیکہ ان دردوں کی وجہ سے کوئی اور اثرات مرتب نہ ہوتے ہوں، کیونکہ صرف دانت درد کی صورت میں روزہ افطار کرنے سے مریض کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا، لیکن اگر معالج یہ کہے کہ اگر آپ روزہ افطار کر لیں اور کھانا کھا لیں تو اس سے دانت یا داڑھ کا درد کم ہو جائے گا تو اس صورت میں ہم یہ کہیں گے کہ روزہ افطار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
کیونکہ ایسا ممکن ہے کہ غذا کی کمی کے باعث بیماری میں اضافہ ہو یا درد میں اضافہ ہو ۔
آنکھوں میں درد کی بھی یہی صورت حال ہے کہ اگر روزہ آنکھ درد پر اثر انداز ہوتا ہو تو روزہ کھول لے، اور اگر اثر انداز نہ ہوتا ہو تو روزہ مت کھولے” انتہی
” تعليقات على الكافي “از: ابن قدامہ (3/123)مکتبہ شاملہ کی خود کار ترتیب کے مطابق۔
لہذا معمول کے وزن سے کم وزن ہونا روزے چھوڑنے کیلیے نا کافی عذر ہے، بلکہ یہ دیکھا جائے گا کہ روزہ رکھنے کی وجہ سے ناقابل برداشت مشقت ، نقاہت یا جسمانی نقصان تو نہیں ہوتا، اور کیا روزے کی وجہ سے پیدا ہونے والی غذائی کمی رات کے وقت کھانے پینے سے مکمل ہو سکتی ہے یا نہیں؟
اس کے لیے معتمد اور قابل اعتبار معالج کا مشورہ کرنا ضروری ہے، چنانچہ آپ اپنے معالج کے مشوروں کے مطابق عمل کریں۔
مزید کیلیے آپ فتوی نمبر: (140246) کا مطالعہ کریں۔
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات