0 / 0

رمضان میں دن کے وقت اعلانیہ گناہ کرنے والے کے ساتھ برتاؤ

سوال: 221501

میرا سوال میرے رہائشی علاقے کے بارے میں جاننے کا متقاضی ہے تا کہ معاملے کی سنگینی واضح ہو سکے! میں مقبوضہ فلسطینی شہر عکہ کا رہائشی ہوں، اور ایک فیکٹری میں ٹرک ڈرائیور ہوں جہاں یہودی ہوتے ہیں، میرا سوال ایک ایسے مسلمان آدمی کے بارے میں جو یہی نہیں کہ اس کا عذر ہو یا نہ ہو روزہ نہیں رکھتا؛ بلکہ یہ بنیادی مسئلہ بھی نہیں ہے، مسئلہ یہ ہے کہ وہ صبح کے وقت جب فیکٹری آتا ہے تو وہ بھی میری طرح ٹرک ڈرائیور ہے، وہ سگریٹ نوشی بھی کرتا ہے، لیکن اس سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ چائے کی کیتلی بھی ساتھ لاتا ہے اور آتے ہی جو بھی روزہ خور ہیں ان کی “ضیافت” شروع کر دیتا ہے چاہے ان روزہ خوروں کا تعلق مسلمانوں سے ہو یا یہودیوں سے! سوال یہ ہے کہ میں اس کے ساتھ اور اس جیسے دیگر بہت سے مسلمانوں کے ساتھ کیسے برتاؤ کروں؟ مطلب کہ انہیں سلام کروں؟ یا جب وہ مجھے سلام کریں تو ان کے سلام کا جواب دوں؟ اسے میں کس طرح سمجھاؤں؟ اور اگر وہ میری بات نہ مانے اور ضد پر اڑ جائے تو پھر اس کے ساتھ کیسا برتاؤ رکھوں؟ نیز دیگر معاملات میں میں اس کے ساتھ کیسے تعامل کروں۔۔۔؟ اللہ تعالی آپ سب کو بہترین جزائے خیر سے نوازے۔

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اول:

آپ کے لئے شرعی طور پر نصیحت یہ ہے کہ آپ اسے وعظ و نصیحت کریں، رمضان میں روزہ خوری کے متعلق اور اس عمل کی سنگینی بیان کریں کہ یہ عظیم ترین کبیرہ گناہوں میں سے ایک ہے۔

مزید برآں کہ وہ اس کبیرہ گناہ کے ساتھ ایک اور کبیرہ گناہ بھی شامل کر لیتا ہے اور وہ ہے اعلانیہ روزہ خوری، روزے کا عدم احترام، کھاتے پیتے ہوئے چھپ کر نہ کھانا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے دل میں اس اسلامی شعیرہ کی تعظیم انتہائی کمزور ہے، پھر اس پر مستزاد یہ کہ وہ دوسروں کو اپنے اس عمل سے تکلیف دیتا ہے، اہل ایمان کے دلوں کو ٹھیس پہنچاتا ہے ، نیز دشمنوں کو مسلمانوں پر پھبتی کسنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔

صحیح بخاری اور مسلم میں ہے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا: (میری تمام امت کو گناہوں سے معافی ملے گی۔ سوائے ان لوگوں کے جو اعلانیہ گناہ کرنے والے ہیں۔ اعلانیہ گناہ کرنے میں یہ بھی شامل ہے کہ بندہ رات کو ایک گناہ کرے پھر صبح ہو تو اللہ نے اس کا پردہ رکھا ہوا ہو لیکن وہ خود کہے اوئے فلاں !میں نے رات ایسا ایسا کرتوت کیا حالانکہ اس نے رات گزار دی اور اس کے رب نے اس پر پردہ ڈالا ہوا تھا، لیکن وہ صبح اٹھتا ہے تو وہ اپنے رب کا ڈالا ہوا پردہ خود چاک کر دیتا ہے۔)اس حدیث کو امام بخاری: (5721) اور مسلم : (2990)نے روایت کیا ہے۔

تو حدیث میں اس شخص کو اعلانیہ گناہ گار کہا گیا ہے جو چھپ کر گناہ کرتا ہے ، لیکن جو گناہ ہی اعلانیہ اور دن دیہاڑے کر رہا ہو، اللہ سے ذرہ برابر شرم نہ کھائے اور نہ ہی گناہ کرتے ہوئے پردہ پوشی کا اہتمام کرے، تو اس کیا حال ہو گا؟!

دوم:

نصیحت کرنے کا طریقہ کیا ہو؟ تو آپ جیسے افراد جنہیں اس ٹرک ڈرائیور اور اس جیسے لوگوں پر کوئی اختیارات حاصل نہیں ہیں، ان سے پیار سے بات کریں، انہیں اللہ کی یاد دلائیں، اللہ جل جلالہ سے ڈرائیں، اور اس کے کرتوت کی سنگینی واضح کریں، اسے یہ بتلائیں کہ رب العالمین پر ایمان کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ انسان اللہ تعالی کا احترام کرے، اس کے شعائر کی تعظیم کرے، ان کے مطابق عمل پیرا ہو، اللہ کی مقرر کردہ حدود کی تعظیم کرے، اور ان حدود کو عبور کرنے سے دور رہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

ذَلِكَ وَمَنْ يُعَظِّمْ حُرُمَاتِ اللَّهِ فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَأُحِلَّتْ لَكُمُ الْأَنْعَامُ إِلَّا مَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ [30] حُنَفَاءَ لِلَّهِ غَيْرَ مُشْرِكِينَ بِهِ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ فِي مَكَانٍ سَحِيقٍ [31] ذَلِكَ وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوبِ

ترجمہ: اور جو شخص اللہ کی احترام والی چیزوں کی تعظیم کرے تو یہ بات اس کے پروردگار کے ہاں اس کے لئے بہتر ہے۔ نیز تمہارے لئے چوپائے حلال کئے گئے ہیں ماسوائے ان کے جو تمہیں بتلائے جا چکے ہیں۔ لہذا بتوں کی گندگی سے بچو اور خلاف شریعت بات سے بھی بچو [30] اللہ کے لئے یکسو ہو جاؤ اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ اور جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک بنایا تو وہ ایسے ہے جیسے وہ آسمان سے گرے پھر اسے پرندے اچک لے جائیں، یا ہوا اسے کسی دور دراز مقام میں لے جا کے پھینک دے۔ [31] یہ (جو شخص ان تمام چیزوں سے بچتا ہے) اور اللہ کے شعائر کی تعظیم کرے تو یہ بات دلوں کے تقویٰ سے تعلق رکھتی ہے۔ [الحج:30-32]

اگر ان تمام اقدامات کے باوجود بھی اس پر کوئی اثر نہ ہو ، آپ اسے روگرداں ہی دیکھیں ، اللہ تعالی کی حرمتوں کو پامال کرنے والا پائیں، تو آپ کے لئے شرعی طور پر جائز ہے کہ آپ اس سے قطع تعلقی کر لیں، اس سے بات بھی نہ کریں، اس کے ساتھ کسی قسم کے معاملات نہ کریں، سلام بھی نہ کریں نہ ہی سلام کا جواب دیں، خصوصاً ایسی حالت میں جب وہ اس قسم کے سنگین گناہ کر رہا ہو، تو آپ کے لئے یہ جائز ہی نہیں ہے کہ گناہ کرنے کے دوران اس کے ساتھ بیٹھیں، یہاں تک کہ وہ یہ گناہ چھوڑ دے یا اس سے توبہ کر لے۔

ہاں آپ اس سے اس حد تک بات کر سکتے ہیں جو آپ پر ملازمت کی وجہ سے ضروری ہوتی ہے۔

لیکن اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے قطع تعلقی کی بنا پر آپ کا دینی یا نفسیاتی نقصان ہو گا؛ کیونکہ آپ ایسے شہر میں رہ رہے ہیں جہاں کافروں کی حکومت ہے، اور آپ کو غالب گمان ہے کہ قطع تعلقی کی بنا پر آپ کو تکالیف کا سامنا کرنا پڑے گا، تو ایسے میں شر سے بچنے کے لئے اس قدر لچک دکھائی جا سکتی ہے جس سے آپ شر سے بچ جائیں، لیکن ساتھ میں حسب استطاعت اسے گناہ سے روکتے بھی رہیں۔

مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (83581) کا جواب ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android