اگر دوران خطبہ كوئى دوسرا شخص آپ كو سلام كرے، اور اگر وہ ہاتھ بھى سلام كے ليے بڑھائے تو كيا حكم ہے ؟
دوران خطبہ سلام كے ليے ہاتھ بڑھانے والے كو سلام كا جواب دينے كى كيفيت
سوال: 22262
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
آپ خطبہ كے وقت اسے اشارہ كرينگے اور اپنا ہاتھ اس كے ہاتھ ميں ديں ليكن كلام نہيں كرينگے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے خاموش رہنے كا حكم ديتے ہوئے فرمايا ہے:
" جب آپ اپنے ساتھى كو جمعہ كے دن دوران خطبہ خاموش ہونے كا كہيں تو آپ نے لغو اور باطل كام كيا "
صحيح بخارى الجمعۃ حديث نمبر ( 882 ) صحيح مسلم الجمعۃ حديث نمبر ( 1404 ) يہ الفاظ متفق عليہ ہيں.
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے خطبہ كے وقت امر بالمعروف كو لغو قرار ديا، تو پھر اس كے علاوہ كلام كى حالت كيا ہو گى، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا حديث ميں فرمان ہے:
" جس نے كنكرياں چھوئيں اس نے لغو كام كيا "
صحيح مسلم الجمعہ حديث نمبر ( 1419 ).
لہذا مومن كو چاہيے كہ وہ خاموشى اور خشوع كے ساتھ خطبہ جمعہ سنے، اور كنكريوں وغيرہ كے ساتھ عبث كام كرنے سے اجتناب كرے، اگر كوئى شخص اسے سلام كرے تو اس كى طرف اشارہ كرے اور كلام نہ كرے، اور اگر وہ ہاتھ بڑھائے تو اپنا ہاتھ بھى اس كے ہاتھ ميں دے دے ليكن كلام نہ كرے تو اس ميں كوئى حرج نہيں، جيسا كہ اوپر بيان ہو چكا ہے.
اور خطبہ ختم ہونے كے بعد اسے سمجھائے كہ ايسا نہيں كرنا چاہيے، بلكہ اس كے ليے مشروع يہ ہے كہ جب وہ مسجد ميں داخل ہو اور خطبہ ہو رہا ہو تو دو ركعت تحيۃ المسجد ادا كر كے بيٹھ جائے اور خطبہ ختم ہونے تك كسى كو سلام نہ كرے، اور اگر اسے چھينك آئے تو وہ اپنے دل ميں الحمد للہ كہے اور اس كى آواز بلند نہ كرے.
ماخذ:
ديكھيں كتاب: مجموع فتاوى و مقالات متنوعۃ فضيلۃ الشيخ علامہ عبد العزيز بن عبد اللہ بن باز رحمہ اللہ ( 12 / 410 )