اگر رمضان میں شیطان جکڑا ہوا ہوتا ہے تو کیا ضروری ہے کہ ہم تلاوت قرآن یا برے خیالات آنے پر اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم پڑھیں؟
ماہ رمضان میں شیطان مردود سے اللہ کی پناہ حاصل کرنا۔
سوال: 222629
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
الحمدللہ:
اول:
صحیح احادیث میں ثابت ہے کہ ماہ رمضان میں شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے۔
جیسے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جس وقت ماہ رمضان شروع ہو جائے تو آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں اور شیطانوں کو جکڑ دیا جاتا ہے) اس حدیث کو امام بخاری: (1899) اور مسلم : (1079)نے روایت کیا ہے۔
لیکن شیاطین کو جکڑ دینے سے یہ لازم نہیں آتا کہ ماہ رمضان میں تعوذ یعنی اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم ہی نہ پڑھیں، خصوصاً ایسی جگہوں میں جہاں پر تعوذ پڑھنا شرعی عمل ہے، جیسے کہ قرآن مجید کی تلاوت کے وقت، یا بیت الخلاء وغیرہ جاتے ہوئے۔ اس کی دو وجوہات ہیں:
1- حدیث میں یہ کہا گیا ہے کہ شیاطین ماہ رمضان میں جکڑ دئیے جاتے ہیں، لیکن حدیث میں یہ نہیں کہا گیا کہ وہ دل میں وسوسے ڈالنے سے باز بھی آ جاتے ہیں۔
جیسے کہ ابو الولید الباجی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“شیاطین کے جکڑنے کا مفہوم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انہیں حقیقی معنوں میں جکڑ دیا جائے، تو اس طرح وہ ایسا کام کرنے سے باز آ جاتا ہے جو وہ کھلے رہ کر کرتا ہے، چنانچہ اس میں ایسی کوئی دلیل نہیں ہے کہ شیطان کو ہر قسم کے تصرف سے روک دیا جاتا ہے؛ کیونکہ جکڑا ہوا شخص وہ ہوتا ہے جس کو گردن تا ہاتھوں تک باندھ دیا گیا ہو، وہ بات کر کے کام چلا سکتا ہے، دیکھ سکتا ہے، اور دیگر بہت سے کام کر سکتا ہے۔۔۔” ختم شد
” المنتقى ” ( 2 / 75 )
شیاطین کو جکڑنے کا معنی سمجھنے کے لئے آپ سوال نمبر: (39736) اور (12653)کا جواب ملاحظہ کریں۔
2- تعوذ پڑھنے کا حکم کئی جگہوں پر ہے، ان میں یہ بھی شامل ہے کہ جب شیطان دل میں برے خیال ڈالے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
وَإِمَّا يَنزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ إِنَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
ترجمہ: آپ کو اگر کوئی وسوسہ شیطان کی طرف سے آنے لگے تو اللہ کی پناہ مانگ لیا کیجئے بلاشبہ وہ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے۔ [الأعراف :200]
اسی طرح قرآن مجید کی تلاوت کرنے کا ارادہ کرتے ہوئے بھی تعوذ پڑھنا چاہیے، اس کے بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے:
فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
ترجمہ: پھر جب آپ قرآن پڑھنے لگیں تو شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگ لیا کریں [النحل: 98]
تو اس کا مطلب یہ ہے کہ؛ تعوذ پڑھنا عبادت اور شرعی عمل ہے، اس لیے تعوذ کے بارے میں کہنا کہ کسی وقت اس کا فائدہ نہیں بھی ہوتا ؛ محتاج دلیل ہے۔ اس لیے کہ یہ ایک غیبی عمل ہے یہاں عقل کا کوئی سروکار نہیں ہے۔ تو چونکہ شریعت نے رمضان کو تعوذ پڑھنے سے مستثنی نہیں کیا تو محض عقلی نتائج کی بنا پر استثنا کشید کرنے کی گنجائش نہیں ہے، بلکہ رمضان میں شیاطین کی جکڑ بندی کو تسلیم کرتے ہوئے بھی ایسا کہنے کی گنجائش نہیں ہے؛ کیونکہ یہ سب باتیں شریعت نے ہمیں بتلائی ہیں، اور شریعت نے ہی اس کا حکم دیا ہے، اس لیے ان دونوں میں کوئی تعارض ہی نہیں ہے۔
تو خلاصہ یہ ہے کہ:
مسلمان ان تمام جگہوں پر تعوذ پڑھے جہاں شریعت نے بتلایا ہے، اسے محض ذاتی نکتہ نظر یا شبہات کی بنا پر ترک مت کرے۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات