سوال: میں نے مشکوک گوشت سے متعلقہ تمام سوالات پڑھے ہیں، لیکن مجھے ان واقعاتی حقائق کے متعلق جواب نہیں ملا جو ہمیں جرمنی میں در پیش ہیں، یہاں کے لوگ اہل کتاب میں شمار کیے جاتے ہیں، لیکن ان کے ہاں جانور کو ذبح کرنے سے پہلے بجلی کا جھٹکا دیا جاتا ہے، دوسری جانب یہاں مقیم ترکی کے مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے جانوروں کا گوشت حلال ہے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے ذکر کیا تھا کہ اہل کتاب اور مسلمانوں کے ذبح کرنے کے طریقہ کے بارے میں سوال کرنا ہی درست نہیں ہے۔
تو کیا ہم جرمنی کی گوشت کی دکانوں سے گوشت خریدیں یا ترک باشندوں سے لیں؟ یا پھر ہمیں گوشت کے حلال ہونے کے متعلق سوال کر کےاطمینان کرنا پڑے گا؟ لیکن یہ معاملہ بہت ہی مشکل ہے۔
میں نے شیخ سعدی رحمہ اللہ کی کتاب القواعد الفقھیہ میں پڑھا ہے کہ: “گوشت کے بارے میں اصل حرمت ہے” تو اب ہم شیخ سعدی اور شیخ ابن عثیمین رحمہما اللہ کی بات میں تطبیق کیسے دے سکتے ہیں؟
کچھ مغربی ممالک میں گوشت کا حکم
سوال: 223005
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
سب سے پہلے ہمیں جانوروں کے ذبح کرنے سے متعلق شرعی قاعدے کو سمجھ لینا چاہیے ، جس میں ہے کہ جانوروں کے گوشت سے متعلق اصل یہ ہے کہ یہ حرام ہے۔
چنانچہ شیخ عبد الرحمن سعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“گوشت کے متعلق اصل حرمت ہے، یہاں تک کہ گوشت کے حلال ہونے کی دلیل ہمیں مل جائے چنانچہ اگر کسی جانور کے بارے میں دو وجوہات سامنے آئیں ایک سے حلال ہونا ثابت ہو اور دوسرے سے حرام ہونا ثابت ہو تو دوسرے کو ترجیح دیکر اس کے گوشت کو حرام قرار دیں گے” انتہی
” رسالة القواعد الفقهية ” ( 29 )
یہ اصول شیخ عبد الرحمن سعدی رحمہ اللہ سے پہلے بہت سے اہل علم نے بیان کیا ہے، اس کیلئے دیکھیں: ” إحكام الأحكام “از: ابن دقیق العید ( 2 / 286 ) اور ” فتاوى کبری” از: ابن تیمیہ ( 3 / 110 )
اس فقہی قاعدے کی دلیل عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں شکار میں سے کیا چیز حلال ہے اور کیا چیز حرام ہے، کے متعلق سکھایا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا تھا: (جب تم اپنا کتے پر بسم اللہ پڑھ کر چھوڑو، اور کتا شکار پکڑ کر شکار کو قتل کر دے تو اسے کھاؤ، اور اگر پکڑ کر خود کھانا شروع کر دے تو پھر مت کھاؤ، کیونکہ یہ شکار اس نے اپنے لیے کیا ہے، اور اگر تمہارا کتا دیگر کتوں کیساتھ مل کر شکار کرے جنہیں بسم اللہ پڑھ کر نہیں چھوڑا گیا تو پھر شکار کو مت کھانا کیونکہ تمہیں نہیں معلوم کہ کس نے اس شکار کو قتل کیا ہے اور اگر تم تیر سے شکار کرو اور وہ شکار تمہیں ایک یا دو دن کے بعد صرف تمہارے تیر کے نشانات کیساتھ ملے تو اسے کھا لو، اور اگر پانی میں گرا ہو تو پھر تم اسے مت کھاؤ)
بخاری: ( 5475 ) مسلم :( 1929 )
ابن قیم رحمہ اللہ اس حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
“چونکہ جانوروں کے بارے میں اصل یہ ہے کہ وہ حرام ہیں، اور حلال ہونے کی شرائط کے بارے میں ابہام ہو کہ کیا حلال ہونے کی شرط پائی گئی ہے یا نہیں؟ تو شکار کیا ہوا جانور اپنی اصل پر باقی رہے گا، یعنی حرام متصور ہوگا۔” انتہی
” اعلام الموقعین” ( 1 / 340 )
لیکن شریعت میں کچھ ایسے شواہد موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ حرام ہونے کا حکم زائل کرنے کیلئے یقینی امور ضروری نہیں ہیں، بلکہ ظاہر اور ظن غالب ہی کافی ہے، چنانچہ شکار اور ذبح کرنے کی صلاحیت رکھنے والے کی طرف سے شکار یا ذبح کرنا ظاہری طور پر درست ہے، اس لیے کسی کمزور احتمال کی جانب دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے، تاہم اگر کوئی ایسا یقینی امر سامنے آ جائے جو شرعی طور پر ذبح ہونے کی علامت ہو تو یہ افضل ہے۔
ابن دقیق العید رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“شکار کے بارے میں ابو ثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ کی حدیث اس بات کی متقاضی ہے کہ ظن غالب کے ذریعے ترجیح دی جائے، کیونکہ شواہد کی بنا پر قائم ہونے والا ظن غالب اصل کو بنیاد بنا کرے قائم کیے جانے والے ظن غالب سے زیادہ بہتر ہے” انتہی
” إحكام الأحكام ” ( 2 / 286 )
اسی طرح عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں ہے کہ: “لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور انہوں نے کہا: ہمارے پاس کچھ لوگ دیہات سے گوشت لیکر آتے ہیں، اور ہمیں یہ معلوم نہیں ہے کہ اس پر ذبح کرتے ہوئے اللہ کا نام لیا گیا ہے یا نہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا: (تم اللہ کا نام اس پر لیکر کھالو)عائشہ رضی اللہ عنہا ان لوگوں کے بارے میں مزید بتلاتی ہیں کہ یہ لوگ ابھی نو مسلم تھے۔”
ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
“اس حدیث سے یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ مسلم بازاروں میں پایا جانا والا گوشت حلال متصور ہوگا، اسی طرح جنہیں دیہاتوں میں رہنے والے مسلمان ذبح کریں وہ بھی حلال ہوگا؛ کیونکہ عام طور پر یہی ہے کہ سب مسلمانوں کو کم از کم بسم اللہ پڑھ کر ذبح کرنے کا تو علم ہوتا ہی ہے، اسی بات کو ابن عبد البر رحمہ اللہ نے ٹھوس الفاظ میں ذکر کیا ہے، چنانچہ وہ کہتے ہیں: “اس حدیث میں یہ بات ہے کہ مسلمان کے ذبیحے کو اسی بات پر محمول کیا جائے گا کہ اس نے بسم اللہ پڑھ کر ہی ذبح کیا ہے؛ کیونکہ مسلمان کے بارے میں جب تک غلط قسم کے شواہد نہ ہوں تو اس وقت تک اس کے بارے میں ہر طرح اچھا گمان ہی رکھا جائے گا” انتہی
” فتح الباری ” ( 9 / 786 )
اس سے واضح ہوتا ہے کہ شیخ سعدی اور شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کی بات میں -ا ن شاء اللہ-کوئی تعارض نہیں ہے؛ لہذا جس وقت شیخ سعدی رحمہ اللہ نے یہ کہا ہے کہ گوشت کے بارے میں اصل حرمت ہی ہے، ان کا یہ مقصد نہیں تھا کہ ہر ایسا گوشت جس کے بارے میں ہمیں یقین نہ ہو وہ تمام گوشت حرام ہیں، بلکہ ان کا مقصد یہ تھا کہ ظاہری طور پر یا ظن غالب کے مطابق اگر یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ جانور کو شرعی طور پر صحیح انداز سے ذبح کیا گیا تھا تو اسے حلال ہی متصور کیا جائے گا۔
اور شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کی گفتگو کا مطلب یہ ہے کہ: شکار اور ذبح کرنے کی صلاحیت رکھنے والے کی طرف سے شکار یا ذبح کرنا ظاہری طور پر درست ہے؛ چونکہ مسلمان شرعی طور پر جانور ذبح کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اگر وہ کسی جانور کو ذبح کرے تو ظاہری طور پر اسے درست و صحیح سمجھا جائے گا، لہذا اس سے ذبح کرنے کی کیفیت اور بسم اللہ پڑھنے کے متعلق استفسار نہیں کیے جائیں گے، اس کیلئے ظاہری حالت پر اعتماد ہی کافی ہے، نیز علمائے کرام سے ایسی بہت سی مثالیں ملتی ہیں جن میں ظاہری حالت کو دیکھ کر حرمت اصلیہ کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔
اور یہی بات اہل کتاب کے ذبیحے کے بارے میں بھی کہی جائے گی۔
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“تمام اہل علم کا اجماع ہے کہ قصاب یا دکاندار کی بات پر اعتماد کرتے ہوئے گوشت کے حلال ہونے کے بارے میں سوال کیے بغیر ان سے گوشت خریدنا جائز ہے، چاہے قصاب یہودی، عیسائی یا فاسق و فاجر شخص ہی کیوں نہ ہو، ہم اس کی بات پر اعتماد کرینگے اور حلال ہونے کے اسباب کے بارے میں استفسار نہیں کرینگے” انتہی
” إعلام الموقعين ” ( 2 / 181 )
مزید کیلئے دیکھیں: ” الأشباه والنظائر ” از: سیوطی ( 140 )
نیز آپ سوال نمبر : (20805) کا جواب بھی ملاحظہ کریں۔
اور شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے یہ بھی پوچھا گیا کہ:
“ہمارے ہاں مرغی سمیت دیگر منجمد گوشت بیرون ملک سے آتا ہے، اس کا کیا حکم ہے؟”
تو انہوں نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا:
“اہل کتاب اور یہودیوں کی طرف سے آنے والے گوشت کے بارے میں اصل یہی ہے کہ وہ حلال ہیں، بالکل اسی طرح جیسے ہمارے پاس اسلامی ممالک سے گوشت آتا ہے اس کے بارے میں بھی اصل حکم یہی ہے کہ وہ بھی حلال ہے، اگرچہ ہمیں ان کے بارے میں یہ علم نہیں ہے کہ انہوں نے کیسے ان جانوروں کو ذبح کیا ہے، ہمیں نہیں معلوم کہ انہوں نے اللہ کا نام لیا تھا یا نہیں، کیونکہ اصل تو یہی ہے کہ ذبح کرنے والوں نے صحیح طریقے سے ہی ذبح کیا ہے، اور اس اصل کو اس وقت تک نہیں چھوڑا جا سکتا جب تک اس سے متصادم ٹھوس شواہد نہ مل جائیں، اس اصل کی دلیل صحیح بخاری میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے کہ وہ کہتی ہیں کہ: “لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور انہوں نے کہا: ہمارے پاس کچھ لوگ دیہات سے گوشت لیکر آتے ہیں، اور ہمیں یہ معلوم نہیں ہے کہ اس پر ذبح کرتے ہوئے اللہ کا نام لیا گیا ہے یا نہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا: (تم اللہ کا نام اس پر لیکر کھالو)عائشہ رضی اللہ عنہا ان لوگوں کے بارے میں مزید بتلاتی ہیں کہ یہ لوگ ابھی نو مسلم تھے”
اب اس حدیث کے مطابق اگر کوئی چیز کسی ماہر نے بنائی ہو تو ہمیں اس کے بارے میں یہ پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے کہ کیا اس نے اسے صحیح انداز میں بنایا ہے یا نہیں؟ بالکل اسی طرح اہل کتاب کی طرف سے آنے والے گوشت کے بارے میں بھی ہم یہی کہیں گے کہ اہل کتاب کا ذبیحہ حلال ہے، اور ہمیں ان کے ذبح کرنے کے طریقہ کے بارے میں جستجو کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
لیکن اگر یہ واضح ہو جائے کہ در آمد شدہ گوشت صحیح انداز سے ذبح شدہ نہیں ہیں تو ہم اسے نہیں کھائیں گے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ: (دانت اور ناخن کے علاوہ کوئی بھی چیز خون بہا دے اور جانور پر اللہ کا نام لیا گیا ہو تو اسے کھا لو، دانت ہڈی ہے، اور ناخن حبشیوں کی چھری ہے)
کسی انسان کو بھی شدت پسند نہیں بننا چاہیے اور ایسی چیزوں کے بارے میں تحقیق کرتا پھرے جن کے بارے میں تحقیق کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے، لیکن اگر اسے کسی چیز کے بارے میں معلوم ہو جائے کہ یہاں خرابی ہے، اور پھر یقین بھی کر لے تو ایسی صورت میں اس سے بچنا لازمی ہے۔
چنانچہ اگر دل میں شکوک و شبہات ہوں کہ جانور کو صحیح انداز میں ذبح کیا گیا ہے یا نہیں ؟
تو اس بارے میں ہمارے پاس دو راستے ہیں: پہلا راستہ یہ ہے کہ : اس گوشت کو صحیح سمجھے، اور دوسرا راستہ یہ ہے کہ: پرہیز کرے، چنانچہ اگر انسان پرہیز کرتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں اور اگر کھا لیتا ہے تو تب بھی کوئی حرج نہیں ہے۔۔۔”
” نور على الدرب” ابن عثیمین (20/2 ) مکتبہ شاملہ کی ترتیب کے مطابق
دوم:
اگر صحیح انداز سے ذبح نہ ہونے کو تقویت دینے والے شواہد اور قرائن موجود ہوں ، مثال کے طور پر: مذبح خانے کے علاقے میں بے دین عیسائی ، یا اہل کتاب کے علاوہ دیگر غیر مسلم رہتے ہوں ، یا سلاٹر ہاؤسز کے بارے میں مشہور ہو کہ وہ ذبح کرتے ہی نہیں ہیں، بلکہ چوٹ مار کر یا قتل کر کے گوشت بنایا جاتا ہے، یا اس علاقے میں جانور چھری سے ذبح کرنے پر پابندی ہو تو ایسی صورت میں ایسے علاقوں کا گوشت حرام ہوگا، کیونکہ یہاں پر قوی اور ٹھوس قرائن موجود ہیں جو کہ ظاہری اعتبار کو ختم کرنے کیلئے کافی ہیں۔
بلکہ کچھ علاقوں میں تو ایسا بھی ہے جہاں ذبح کرنے پر پابندی ہے وہاں پر مسلمانوں کو جانوروں کے حقوق کا تحفظ کرنے والی تنظیموں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے!!
محترم بھائی! اگر آپ کے پاس شرعی طور پر جانور کے ذبح نہ ہونے کے قرائن موجود ہوں، اور آپ کے ذہن میں غالب گمان یہ بن جائے کہ کسی مخصوص ملک، یا کمپنی، یا دکان کا گوشت صحیح انداز سے ذبح نہیں ہوتا تو آپ ایسا گوشت نہ کھائیں اور نہ ہی خریدیں۔
اور اگر آپ کیلئے معاملہ واضح نہیں ہے، نیز حقائق جاننا بھی مشکل ہے تو پھر آپ یہ گوشت خریدیں اور کھائیں ان شاء اللہ کوئی حرج نہیں ہوگا، جیسے کہ پہلے فقہی اکیڈمی کی قرارداد پہلے گزر چکی ہے۔
غیر مسلم ممالک میں وزٹ ویزے پر جانے والے یا وہاں پر مقیم مسلمان اہل کتاب کا ایسا ذبیحہ کھا سکتے ہیں جو شرعی طور پر کھانا درست ہو، لیکن کھانے سے پہلے یہ اطمینان کر لیں کہ اس میں کوئی حرام عنصر شامل نہیں ہے، تاہم اگر یہ بات ثابت ہو جائے کہ اہل کتاب نے اس گوشت کو شرعی طور پر ذبح کر کے نہیں بنایا تو پھر آپ یہ گوشت مت کھائیں۔ انتہی
آپ مزید معلومات کیلئے اپنے علاقے کے اسلامی مراکز سے تعاون لے سکتے ہیں، ہو سکتا ہے کہ ان کے پاس مذبح خانوں اور سلاٹر ہاؤسز کے بارے میں قوانین اور ان کے حالات کے متعلق خبر ہو۔
اسی طرح آپ ان سوالات کے جوابات بھی دیکھیں: ( 10339 ) ، ( 11609 ) ، ( 12569 ) اور ( 82444 )
سوم:
ذبح کرنے سے پہلے جانور کو بجلی کا جھٹکا لگانا سنگین معاملہ ہے، اس وجہ سے ذبح شدہ جانور کے بارے میں ٹھوس شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں؛ کیونکہ عام طور پر بجلی کے جھٹکوں سے جانور ذبح ہونے سے قبل ہی مر جاتا ہے، اور ایسی صورت میں جانور مردار ہوگا، مرنے کے بعد گردن سے کاٹنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔
اسی لیے “اسلامی فقہی اکیڈمی” کی قراردادوں میں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ:
أ- اصل یہی ہے کہ جانور کو بیہوش کیے بغیر ہی ذبح کیا جائے؛ کیونکہ اسلامی شرائط و آداب کے مطابق جانور کو ذبح کرنا ہی جانور کیساتھ رحمت، اور احسان ہے، بلکہ اس طرح جانور کو کم سے کم تکلیف ہوتی ہے۔
اس لیے مذبح خانوں کی انتظامیہ کو بڑے جانور ذبح کرنے کے آلات میں مزید بہتری لانی چاہیے، تا کہ ذبح کرنے کا مقصد مکمل طور پر حاصل ہو۔
ب- اس پیرے کی شق (أ) میں ذکر شدہ چیزوں کا خیال رکھتے ہوئے یہ قرار طے پایا ہے کہ “بیہوش کرنے کے بعد ذبح کیے جانے والے جانور شرعی طور پر حلال ہیں بشرطیکہ ان میں تمام فنی شرائط پائی جائیں جن سے یہ اطمینان حاصل ہو جائے کہ ذبح کرنے سے پہلے جانور کی موت واقع نہ ہوئی ہو، موجودہ حالات میں ماہرین نے درج ذیل امور کو لازمی قرار دیا ہے:
1- برقی رو کے منفی اور مثبت راڈ کو دائیں اور بائیں کنپٹی پر لگایا جائے یا پیشانی اور سر کی پچھلی جانب یعنی گدی پر لگایا جائے۔
2- وولٹیج 100 سے 400 وولٹ کے درمیان ہو۔
3- برقی رو کی شدت (0.75 سے 1 ) ایمپیئر تک بکری کیلئے ہو، اور گائے وغیرہ کیلئے (2 سے 2.5) ایمپیئر تک ہو۔
4- بجلی کا جھٹکا 3 سے 6 سیکنڈ تک دیا جائے۔
ت- جس جانور کو ذبح کرنا مقصود ہے اسے (Captive Bolt Pistol) [ایک پستول جس میں سے ایک لوہے کا نوک دار میخ نکل کر جانور کے دماغ میں لگتا ہے اور بیہوش ہو جاتا ہے، چنانچہ 3 سے 4 منٹ تک جانور ذبح نہ کیا جائے تو وہ مر جائے گا] کے ذریعے یا دماغ پر کلہاڑی اور ہتھوڑی مار کر یا، یا گیس کے ذریعے بیہوش کرنا جائز نہیں ہے، جیسے کہ عام طور پر انگریز انہی ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے جانور بیہوش کرتے ہیں۔
ث- مرغیوں کو بجلی کے جھٹکوں سے بیہوش کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ عینی مشاہدے میں آیا ہے کہ اس طرح کافی تعداد میں مرغیاں ذبح ہونے سے پہلے ہی مر جاتی ہیں۔
ج- کاربن ڈائی آکسائید کو ہوا یا آکسیجن کے ساتھ ملا کر ، یا چپٹی گولی والی پستول [non-penetrating bolt gun] استعمال کر کے جانور بیہوش کرنا اور پھر اسے ذبح کرنا ایسے جانور کا گوشت حلال ہے، بشرطیکہ اس پستول کو بھی ایسے انداز سے استعمال کیا جائے جس سے جانور کی موت ذبح کرنے سے پہلے واقع نہ ہو” انتہی
” قرار داد نمبر: 101 / 3 / اجلاس نمبر: 10
چہارم:
ایسے ذبح خانے جن کے بارے میں شکوک و شبہات ہوں تو اگر ان کا ادارہ ذبح کرنے کا طریقہ بیان کرنے سے کترائے اور مذبح خانوں میں کاروائی کی نگرانی کرنے والی اسلامی تنظیموں کو جائزے کی اجازت نہ دی جائے تو ایسی صورت میں ان کا گوشت بالکل بھی استعمال نہ کیا جائے، کیونکہ یہاں پر ان کے بارے میں بیان کیے جانے والے طریقے کے متعلق شکوک و شبہات مزید تقویت حاصل کر جاتے ہیں۔
چنانچہ ” الموسوعة الفقهية ” ( 26 / 199 ) میں ہے کہ:
“ابن جزی کہتے ہیں: اگر جانور کو ذبح کرنے والا اہل کتاب کا فرد معلوم نہ ہو سکے ، اور ہمیں یہ معلوم ہو جائے کہ وہ جانور کو صحیح انداز سے ذبح ہی کرتا ہے، تو ہم اسے کھائیں گے، اور اگر ہمیں یہ معلوم ہو کہ وہ اندلس کے عیسائیوں کی طرح مردار بھی حلال سمجھتے ہیں ، یا ہمیں ان کے بارے میں کوئی واضح صورت حال سامنے نہ آئے تو جب تک صورت حال واضح نہ ہو اس وقت تک ہم ان کا ذبح شدہ جانور نہیں کھائیں گے۔
ابن شعبان کہتے ہیں کہ : روم سے آنیوالا گوشت اور پنیر مجھے اچھا نہیں لگتا؛ کیونکہ اس میں مردار کی بو آتی ہے۔
قرافی کہتے ہیں کہ: ابن شعبان کی طرف سے اظہار نا پسندیدگی کا مطلب یہ ہے کہ میرے نزدیک روم سے آنیوالا گوشت حرام ہے؛ کیونکہ رومی مردار کھاتے ہیں، اور جانور کا گلا دبا کر یا ڈنڈوں سے پیت کر اسے مار دیتے ہیں” انتہی
اسی طرح ایک اور جگہ ” الموسوعة الفقهية ” ( 21 / 204 ) میں ہے کہ:
“اگر ذبح شدہ جانور اور مردار دونوں میں امتیاز کرنا مشکل ہو تو دونوں کو ہی حرام سمجھیں گے؛ کیونکہ یہاں شک کی بنا پر دونوں حرام ہی تصور کیے جائیں گے، اسی طرح اگر کسی مسلمان نے شکار کرنے کیلئے اپنا ہتھیار پھینکا اور شکار پانی میں گر کر مر گیا اور شکار و مردار میں فرق کرنا ممکن نہ رہا تو اسے کھایا نہیں جائے گا؛ کیونکہ شکار کے بارے میں شک پیدا ہو گیا ہے۔
اور اگر کسی ایسے علاقے میں ذبح شدہ بکری ملے جہاں پر سب لوگ ایسےرہتے ہیں جن کے ذبیحے کے بارے میں شریعت نے منع بھی کیا اور کچھ کے بارے میں اجازت بھی دی ہے تو ایسی صورت میں بکری کے ذبح کرنے والے کا معلوم نہیں ہوگا تو یہ بکری کھانا حلال نہیں ہے، تاہم اگر اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جن کا ذبیحہ حلال ہے تو پھر جائز ہوگا” انتہی
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اگر ہمیں کوئی ذبح شدہ بکری ملے اور ہمیں اسے ذبح کرنے والے کا علم نہ ہو تو پھر دیکھیں گے کہ اگر علاقے میں ایسے لوگ موجود ہیں جن کا ذبیحہ حلال نہیں ہے مثلاً: مجوسی وغیرہ تو یہ بکری حلال نہیں ہوگی، چاہے وہاں کے سارے لوگ مجوسی ہوں یا چند ایک مجوسی ہوں؛ کیونکہ اس طرح ذبیحہ کے متعلق شک پیدا ہو چکا ہے، اور ذبیحہ کے بارے میں اصل یہی ہے کہ وہ حرام ہوتا ہے، لیکن اگر اس علاقے میں صرف مسلمان ہی ہیں تو پھر یہ بکری حلال ہوگی” انتہی
” المجموع ” ( 9 / 91 )
مزید کیلئے آپ ان سوالات کے جوابات بھی ملاحظہ کریں: (10339)، ( 11609 ) ، ( 12569 ) اور ( 82444 )
پنجم:
مذکورہ بالا مکمل تفصیلات کے بعد: اگر آپ کو کوئی مسلمان قصاب ملے جو گوشت بنا کر فروخت کرتا ہو، تو پھر آپ صرف مسلمانوں سے ہی گوشت خریدیں، اور دیگر تمام لوگوں سے بالکل جدا ہی رہیں، کیونکہ اپنا دین بچانے کیلئے احتیاط ضروری امر ہے خصوصاً اگر شکوک و شبہات موجود ہوں تو احتیاط کرنا زیادہ ضروری ہو جاتا ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جو شخص شکوک و شبہات سے بچ جائے تو وہ اپنے دین و آبرو کو تحفظ دے رہا ہے)
بخاری: ( 52 ) مسلم: ( 1599 )
شیخ صالح فوزان حفظہ اللہ کہتے ہیں:
“مسلمان کو ایسے مشکوک گوشت سے بچنا ہی چاہیے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جن چیزوں کے بارے میں تمہیں شک ہے انہیں چھوڑ کر یقینی چیزوں کو اپناؤ) اور اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی فرمان ہے: (جو شخص شکوک و شبہات سے بچ جائے تو وہ اپنے دین و آبرو کو تحفظ دے رہا ہے، اور جو شکوک و شبہات میں ملوّث ہو جائے تو وہ حرام میں ملوّث ہو جاتا ہے)
اس لیے غیر مسلم علاقوں میں موجود تمام مسلمانوں کو اس مسئلے کے حل کیلئے اجتماعی طور پر بھی کوشش کرنی چاہیے، کہ وہ اپنا ذاتی مذبح خانہ بنائیں، یا کسی سلاٹر ہاؤس کی انتظامیہ سے یہ بات طے کر لیں کہ انہیں اسلامی طریقے سے ذبح شدہ جانور کا گوشت چاہیے، تو اس طرح ان کے مسئلے پر قابو پایا جا سکتا ہے” انتہی
” المنتقى من فتاوى الفوزان ” ( 4 / 226 )
مزید کیلئے آپ سوال نمبر: ( 52800 ) اور (128597) کا مطالعہ کریں۔
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات