ہمارا بڑا بھائی ہاتھ اور پاؤں سے معذور ہے، وہ الفاظ بھی صحیح سے نہیں بول سکتا، اسے شادی کی رغبت بھی نہیں ہے؛ کیونکہ وہ اپنے کام ہی نہیں سنبھال سکتا تو دوسروں کے کیا سنبھالے گا! تو کیا وہ شرعی احکام کا مکلف ہے؟ اور کیا اس پر نماز فرض ہے؟ واضح رہے کہ ہم اسے سورت فاتحہ اور نماز سکھانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن وہ اس پر تیار نہیں ہوتا، اور حقیقت میں اسے الفاظ کی ادائیگی سکھانا بہت مشکل بھی ہے، تو کیا اس کی نماز ہو جائے گی؟ اور کیا اسے وراثت میں حصہ ملے گا؟
معذوری نماز کی فرضیت کیلیے رکاوٹ نہیں بن سکتی
سوال: 223085
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
شریعت اسلامیہ میں شرعی احکامات کی تعمیل جن میں نماز بھی شامل ہے یہ عقل کی موجودگی کے ساتھ منسلک ہے، چنانچہ اگر یہ بھائی صاحب عقل ہے، اور اس کی معذوری عقل پر اثر انداز نہیں ہے تو وہ مکلف انسان ہے، لیکن اگر معذوری نے عقل پر اتنا منفی اثر کیا ہے کہ اس میں اچھے برے میں فرق کی صلاحیت مفقود ہو گئی یا کمزور ہو گئی جیسے کہ بچے کی ہوتی ہے تو ایسی صورت میں وہ مکلف نہیں ہو گا، نہ ہی اس پر نماز فرض ہو گی۔
چنانچہ اگر یہ بھائی مکلف ہے تو ایسا ممکن ہے کہ اس کے ذمہ کچھ واجبات کالعدم ہو جائیں، اور یہ وہ والے واجبات ہوں گے جن کی ان میں استطاعت نہیں ہے، چنانچہ اگر وہ کھڑے ہو کر نماز کی صلاحیت نہیں رکھتا تو بیٹھ کر نماز ادا کرے اور اگر مکمل طور پر صحیح انداز سے سورت فاتحہ پڑھنے سے قاصر ہے تو حسب استطاعت سورت فاتحہ پڑھ لے۔۔۔ اور اسی دیگر اعمال میں حسب استطاعت عمل کرے گا۔
مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (213606 ) اور (50058 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
اسی طرح "الموسوعة الفقهية" (10/ 79) میں ہے کہ:
"اگر نماز ادا کرنے والا شخص فاتحہ کا کچھ حصہ پڑھنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو اس کے متعلق مالکی، شافعی اور حنبلی فقہائے کرام کہتے ہیں کہ جتنی سورت فاتحہ آتی ہے اتنی لازمی پڑھے، یہاں شافعی فقہائے کرام کے ہاں اصول بھی ہے کہ [الْمَيْسُورُ لاَ يَسْقُطُ بِالْمَعْسُورِ] یعنی "ممکن عمل؛ ناممکن عمل سے ساقط نہیں ہوگا" مطلب یہ ہوا کہ اگر پوری طرح عمل کرنا ممکن نہ ہو تو جس قدر عمل کرنا ممکن ہے اسے بجا لانا ضروری ہے، جبکہ حنبلی فقہائے کرام کے ہاں اصول یہ ہے کہ: [مَنْ قَدَرَ عَلَى بَعْضِ الْعِبَادَةِ، فَمَا هُوَ جُزْءٌ مِنَ الْعِبَادَةِ – وَهُوَ عِبَادَةٌ مَشْرُوعَةٌ فِي نَفْسِهِ – فَيَجِبُ فِعْلُهُ عِنْدَ تَعَذُّرِ فِعْل الْجَمِيعِ بِغَيْرِ خِلاَفٍ] یعنی: جو شخص عبادت کے کچھ حصے کی استطاعت رکھے، اور وہ حصہ بذات خود بھی شرعی عبادت ہو تو اتنے حصے کو بجا لانا ضروری ہے اگرچہ مکمل عبادت کرنے کی استطاعت نہ بھی ہو، اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔" ختم شد
شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"میری دادی اماں کو قرآن مجید کا معمولی سا حصہ یاد ہے، حتی کہ وہ سورت فاتحہ پڑھتے ہوئے بھی غلطی کر جاتی ہیں ، ہمارے گاؤں میں کچھ لوگوں نے انہیں یہ کہہ دیا ہے کہ اگر آپ کو سورت فاتحہ یاد نہیں ہے تو پھر آپ کی نماز صحیح نہیں ہے، تو کیا یہ صحیح ہے؟"
اس کے بارے میں انہوں نے جواب دیا:
"الحمدللہ، ان کی نماز صحیح ہے ؛ کیونکہ ان کا مقبول عذر ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْحسب استطاعت تقوی الہی اختیار کرو۔ [التغابن: 16] تو اس لیے اگر انہوں نے اپنی اصلاح کرنے کی کوشش کی ہے پھر بھی ان سے غلطی کی درستی نہیں ہوئی تو ان کی نماز صحیح ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک بار ایسے شخص کو جسے فاتحہ نہیں آتی تھی فرمایا تھا کہ وہ نماز میں (سُبْحَانَ اللهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَاللهُ أَكْبَرُ) کہا کرے۔
چنانچہ اگر ان میں اپنی غلطی کی اصلاح کرنے کی بھی استطاعت نہیں ہے ، یا کوشش تو کی لیکن کامیابی نہیں ملی تو وہ (سُبْحَانَ اللهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَاللهُ أَكْبَرُ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ) قراءت کی جگہ پڑھا کرے یہی ان کے لیے کافی ہے۔
لیکن جو شخص جان بوجھ کر غلط پڑھتا ہے، یا غلطی کی اصلاح کر سکتا ہے اس کے باوجود بھی درستی نہیں کرتا ، تو اس کی نماز صحیح نہیں ہو گی، تاہم کوئی بھی مرد یا عورت اپنی غلطی درست کرنے سے عاجز آ جائے تو اس کے بارے میں اللہ تعالی کا فرمان موجود ہے کہ: فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْحسب استطاعت تقوی الہی اختیار کرو۔ [التغابن: 16] " ختم شد
"فتاوى نور على الدرب" (8/ 236-237)
اس لیے آپ اپنے بھائی کو فاتحہ اور نماز سکھانے کی کوشش کرتے رہیں، اور نرمی کے ساتھ اسے سکھائیں، اسے یہ بھی کہیں کہ جس قدر اس میں استطاعت ہے اتنی ہی نماز میں فاتحہ پڑھ لیا کرے، چاہے اس میں کچھ الفاظ کی ادائیگی مفقود ہی کیوں نہ ہو، یا الفاظ کو ایک دوسرے میں گڈ مڈ کر دے تو اس پر کوئی حرج نہیں ہے، اور اس کی نماز صحیح ہو گی۔
جبکہ وراثت کے حوالے سے یہ ہے کہ اسے وراثت میں سے پورا حصہ ملے گا؛ کیونکہ حصول وراثت کیلیے عقل اور جسمانی صحت شرط نہیں ہے، بلکہ اگر کوئی مسلمان مجنون ہے یا بیمار ہے تو اسے وراثت میں سے پورا حصہ ملے گا۔
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات