سوال: وہ کون سے امور ہیں جن کے کرنے سے طواف منقطع نہیں ہوتا اور نہ ہی دوبارہ سے شروع کرنا پڑتا ہے؟
ایسے کون سے امور ہیں جن کے کرنے سے طواف منقطع نہیں ہوتا
سوال: 223763
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
طواف کے صحیح ہونے کی شرط یہ ہے کہ تسلسل کیساتھ طواف کیا جائے، یعنی طواف کرتے ہوئے درمیان میں لمبا فاصلہ نہیں آنا چاہیے۔
دیکھیں: “المغنی” (5/248)
چنانچہ اگر کوئی شخص دو چکر کاٹنے کے بعد مثال کے طور پر پورا ایک گھنٹہ اپنے ساتھی کو تلاش کرنے میں صرف کر دے تو اسے طواف دوبارہ شروع کرنا ہوگا، لیکن اگر وقفہ چند منٹوں کا ہو تو پھر طواف جاری رکھے گا، دوبارہ شروع کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
چنانچہ کچھ اہل علم نے طواف کرنے والے کیلئے نماز جنازہ یا فرض نماز کی اقامت ہونے پر یہ اجازت دی ہے کہ وہ جنازہ اور فرض نماز پڑھ کر اپنا طواف مکمل کر لے شروع سے دوبارہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
چنانچہ ” الموسوعة الفقهية ” (8/ 213) میں ہے کہ:
“فقہائے کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ طواف شروع کرنے کے بعد فرض نماز کھڑی ہو جائے ، تو طواف روک کر جماعت کیساتھ نماز ادا کرے، اور پھر اپنا بقیہ طواف مکمل کر لے؛ کیونکہ دورانِ طواف نماز با جماعت ادا کرنا شرعی طور پر جائز ہے، چنانچہ اس سے طواف منقطع نہیں ہوگا، جیسے چھوٹے غیر متعلقہ کام کرنے سے طواف منقطع نہیں ہوگا۔”
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ:
“طواف کے چکروں میں تسلسل ہونا لازمی شرط ہے، لیکن کچھ علمائے کرام نے رخصت دیتے ہوئے نماز جنازہ یا تھکاوٹ یا اسی طرح کے مختصر وقت کی مصروفیت کی صورت میں چند لمحات کیلئے وقفہ کرنے کی اجازت دی ہے”انتہی
” مجموع فتاوى و رسائل عثیمین” (22/ 296)
ایک اور مقام پر شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“طواف اور سعی کیلئے تسلسل شرط ہے، یعنی طواف اور سعی کے چکر بغیر کسی وقفہ کے مسلسل ادا کیے جائیں، لہذا اگر کسی نے لمبا وقفہ کیا تو پہلے کئے ہوئے چکر کالعدم ہو جائیں گے اور پھر طواف نئے سرے سے کرنا لازمی ہوگا، لیکن اگر فاصلہ بہت کم ہو مثال کے طور پر دو ، تین منٹ کیلئے آرام کرے اور پھر کھڑے ہو کر اپنا طواف مکمل کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن ایک دو گھنٹےہوں تو یہ بہت لمبا وقفہ ہے ، جس کی وجہ سے دوبارہ طواف شروع کرنا پڑے گا۔” انتہی
“اللقاء الشهری” (16/ 22) مکتبہ شاملہ کی ترتیب کے مطابق
اسی طرح شیخ رحمہ اللہ سے ایک بار پوچھا گیا:
“اگر کوئی انسان چار چکر مکمل کرنے کے بعد نماز کیلئے یا رش کی وجہ سے طواف منقطع کر دے ، اور پھر 25 منٹ کے وقفہ کے بعد دوبارہ شروع کرے تو اتنے وقفے کے بعد طواف دوبارہ شروع کرنے کا کیا حکم ہے؟”
تو انہوں نے جواب دیا:
“یہ طواف لمبے وقفہ کی وجہ سے منقطع ہو گیا ہے ؛ کیونکہ صرف نماز کیلئے منقطع کرنے پر اتنی مدت نہیں ہوسکتی، کیونکہ نماز کیلئے دس یا پندرہ منٹ ہی لگتے ہیں، لیکن 25 منٹ بہت زیادہ لمبا وقفہ ہے، اس لیے گزشتہ چکروں کا پیوستہ چکروں سے تعلق ختم ہو گیا ہے، لہذا طواف صحیح کرنے کیلئے دوبارہ سے شروع کرنا ہوگا، چنانچہ ایسے شخص کو دوبارہ طواف کرنا چاہیے؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ طواف ایک عبادت ہے ، اور عبادت کے اجزاء بکھرے ہوئے نہیں ہوسکتے کہ ہر ایک کے درمیان میں 25 منٹ یا اس سے زیادہ کا فاصلہ ہو”
” مجموع فتاوى و رسائل عثیمین” (22/ 296)
اسی طرح شیخ ابن جبرین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
“ہم نے طواف افاضہ کرتے ہوئے نیچے صحن میں پہلا چکر مکمل کیا لیکن رش کی وجہ سے ہم دوسری منزل پر چلے گئے ، لیکن وہاں بھی رش کی وجہ سے طواف مکمل نہ کر پائے تو ہم چھت پر چلے گئے، اور پھر بقیہ طواف ہم نے چھت پر ہی مکمل کیا، تو کیا ہمارا طواف اس طرح درست ہے؟ یا ہمیں دوبارہ طواف کرنا پڑے گا؟”
تو انہوں نے جواب دیا:
“صحیح بات یہی ہے کہ آپ کا عذر قابل قبول ہے، اگرچہ بہتر یہی تھا کہ آپ نیچے صحن میں طواف کرنے کیلئے صبر سے کام لیتے، کیونکہ آپ مشکل پیش آنے کی وجہ سے دوسری منزل پر چلے گئے، اور وہاں بھی آپ نے ایک دو چکر کاٹے لیکن وہاں بھی مشکل پیش آئی تو آپ چھت پر چلے گئے، ان تمام اقدامات میں آپ کا عذر قابل قبول ہے۔” انتہی
ماخوذ از شیخ کی آفیشل ویب سائٹ:
http://ibn-jebreen.com/books/8-224-8815-7689-3317.htm
دوم:
طواف کے دوران سونے، کھانے، پینے، اور بات کرنے سے طواف منقطع نہیں ہوتا۔
نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“طواف کرنے والے کیلئے کھانا پینا مکروہ ہے، لیکن پینے کی کراہت قدرے کم ہے، اور ان دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں کام کرنے سے طواف باطل نہیں ہوگا۔”
امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“طواف کے دوران پانی پینے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور میں اسے باعث گناہ بھی نہیں سمجھتا، لیکن پانی نہ پیا جائے تو یہ میرے نزدیک زیادہ محبوب ہے؛ کیونکہ یہ ادب کے زیادہ قریب تر ہے” انتہی
“المجموع” (8/ 46)
اسی طرح ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ:
“اگر کوئی شخص دورانِ طواف مکمل یا کچھ دیر کیلئے ایسے انداز سے سو جائے کہ وضو نہ ٹوٹے ۔۔۔ تو صحیح بات یہی ہے کہ اس صورت میں اس کا طواف صحیح ہے” انتہی
” المجموع ” (8/ 16)
خطیب شربینی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اور اگر کوئی دوران طواف ایسے انداز سے سوئے کہ اس کا وضو نہ ٹوٹے تو اس کا طواف منقطع نہیں ہوگا” انتہی
” مغنی المحتاج ” (2/ 244)
دوران طواف نیند کیلئے جو قید لگائی گئی ہے کہ اس سے وضو نہ ٹوٹے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ علمائے کرام طواف کے صحیح ہونے کیلئے وضو کی شرط لگاتے ہیں، اس لیے نیند کیلئے یہ شرط لگائی گئی ہے۔
شیخ صالح فوزان حفظہ اللہ کہتے ہیں:
“دوران طواف گفتگو کرنا جائز ہے، لیکن بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے بہتر اور افضل یہی ہے کہ انسان عبادت، ذکر، اور دعا میں مشغول رہے، گپ شپ نہ لگائے، کیونکہ گپ شپ کرنا افضل اور بہتر عمل کے منافی ہے، تاہم بات کرنے سے طواف صحیح ہوگا، چنانچہ شرعی طور پر جائز بات سے طواف باطل نہیں ہوگا، تاہم بہتر یہ ہے کہ باتیں نہ کرے” انتہی
” مجموع فتاوى شیخ صالح بن فوزان” (2/ 485)
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب